Home Blog Page 4

20+Deep One Line Quotes in Urdu

0

Deep One Line Quotes in Urdu

دل کو بھلائے رکھنا چاہیے کیونکہ
کہ ہر مشکل کا حل اسی میں چپھا ہوتا ہے
“Dil ko bhalaye rakhna chahiye kyun
ke har mushkil ka hal usi mein chhupa hota hai.

زندگی میں اصلی شان وہ ہے
ج و دوسروں کی مدد کرنے میں چپھی ہوتی ہے
“Zindagi mein asli shaan wo hai
jo dosron ki madad karne mein chhupi hoti hai.

خدا سے ڈرتے راہو لیکن ہار نہیں مانو
“Khuda se dartay raho lekin haar nahi maano.”

زندگی ایک سفر ہے اور ہر قدم ایک کہانی ہے
“Zindagi ek safar hai aur har qadam ek kahani hai.”


کامیابی وہ نہیں جو ہمیں مل جائے بلکہ وہ جو ہم رکھ سکے
Kamyabi woh nahi hai jo humein mil jaaye, balkay woh jo hum rakh sakein.

محبت میں کامیابی کا راز سمجھنا ہیں تو دل سے دیکھو اور سمجھوں
“Mohabbat mein kamiyabi ka raaz samajhna hai to dil se dekho aur samjho.”

دل کو صاف رکھنا بھی ایک حنر ہے
“Dil ko saaf rakhna bhi ek hunar hai.”

جہاں چہاں وہاں راہا
“Jahan chaha wahan raha.”

ان جیسا بہرا کوئی نہیں جو سنتا نہ ہو۔
ان جیسا کوئی اندھا نہیں جو نہ دیکھے گا۔
“In jaisa behra koi nahi jo sunta na ho
. In jaisa koi andha nahi jo na dekhe ga.”

اگر آپ نہیں جانتے کہ آپ کہاں جا رہے ہیں،
تو ہو سکتا ہے آپ کہیں اور سمیٹ لیں۔
“Agar aap nahi jaante ke aap kahan ja rahe hain,
Toh ho sakta hai aap kahin aur simat lein.”

 

 

 

 

 

 

مکمل انسان وہ ہے جس کے پاس نصیحت کے لئے الفاظ کے بجاۓ
اخلاق ، عمل اور بہترین کردار ہو۔
“Mukammal insan woh hai jiske paas naseehat ke bajaye alfaz ke bajaye,
akhlaq, amal aur behtareen kirdar ho.”

 

خوشی وہ واحد خوبصورت چیز ہے
جو ہمارے پاس نا ہوتے ہوئے بھی ہم دوسروں کو دے سکتے ہیں۔
“Khushi woh waahid khubsurat cheez hai
jo humare paas na hote hue bhi hum dosron ko de sakte hain.”

اپنی نیکیاں چھپانا آپ کی سوچ کا امتحان ہے
اور دوسروں کے گناہوں کو چھپانا آپ کے کردار کا امتحان ہے۔
“Apni nekiyan chhupana aap ki soch ka imtehan hai aur
dosron ke gunahon ko chhupana aap ke kirdar ka imtehan hai.”

غصہ کو پی جاؤ کہ نتیجہ کے لحاظ سے میں نے اس سے میٹھا
اور اختتام کے لحاظ سے اس سے لذیذ گھونٹ نہیں دیکھا۔
“Gussa ko pee jao ke natija ke lehaz se main ne is se meetha
aur ikhtitam ke lehaz se is se lazeez ghont nahi dekha.”

صرف رب کی ذات ایسی ہے جو معافی مانگنے پر یہ نہیں پوچھتا کہ غلطی کیوں کی تھی؟
“Sirf Rab ki zaat aisi hai jo maafi mangne par yeh nahi poochta ke ghalti kyun ki thi?”

ضمیر کی کھڑکی کھلی رکھیے یہ آپ کی روح کو ٹھنڈی ہوا فراہم کرتا رہے گا۔
“Zameer ki khirki khuli rakhiye, yeh aap ki rooh ko thandi hawa faraham karta rahega.


دلوں میں بسنے والے پھولوں جیسے ہوتے ہیں دنیا سے چلے بھی جائیں تو پیچھے یادوں کی خوشبو چھوڑ جاتے ہیں۔
“Dilon mein basne wale phoolon jaise hote hain, duniya se chale bhi jaayein to peeche yaadon ki khushbu chhod jaate hain.”

بعض اوقات خوشی کسی خواہش کے حصول کے بجاۓ اسے ترک کر دینے سے ملتی ہے ۔ ۔
“Baaz auqat khushi kisi khwahish ke husool ke bajaye usay tark kar dene se milti hai.”


وسوسے کی روئی کان سے نکال دو تاکہ آپ کے کانوں میں آسمانی آوازیں آنے لگیں۔
“Waswase ki rui kaan se nikal do taake aap ke kaanon mein aasmani awaazain aane lagain.”


محبتیں بانٹنے والے محبتیں سمیٹتے بھی ہیں ۔
“Mohabbatein bantne wale mohabbatein simatte bhi hain.”

دفن کئے ہوئے خزانے کا معمہّ

0

دفن کئے ہوئے خزانے کا معمہّ

ایک دفعہ کاذکر ہے، کہ ایک نہایت محنتی کسان جس کا نام رحیم تھا ، ایک ذرعی گاؤں میں رہتا تھا جو کہ پاکستان کے ذرخیز صوبہ پنج میں واقع تھا۔رحیم کے چار بیٹے تھے۔ انکے نام تھے اکبر، اصغر، ناصر اور بابر جو کہ چارو ں میں سب سے چھوٹا تھا۔

یہ چاروں بھائی دوسرے سب ان بچوّں سےبہت مختلف تھے جو کہ قریبی دیہی علاقوں میں ر ہتے تھے ، کیوں کہ یہ چاروں اپنا زیادہ تروقت کھیلنے اور شرارتیں کرنے میں گزارتے تھے۔ جب ہمسائے میں رہنے والے لوگ ان بھائیوں کی شرارتوں سے تنگ آ جاتے تو وہ رحیم سے ان کی شکایت کرتے،تب وہ سب شرارتی بھائی بھولے بھالے بن جاتے اور وعدے پر قائم رہنے کا ارادہ کئے بغیر ہمسایوں سے معافی بھی مانگ لیتے۔

گاؤں میں ایک پرائمری سکول تھا۔ رحیم نے اپنے چاروں بیٹوں کو وہاں اس امید میں داخل کرا دیا کہ ان کے اندر کوئی نظم و ضبط قائم ہوگا۔ مگریہ سب بھائی روزانہ سکول بہت دیر سے جاتے۔ اور استاد خواہ کتنی دفعہ ڈانٹ ڈپٹ کرتے ،مگر وہ اپنے طور طریقے نہ بدلتے۔

رحیم بہت ہی رحم دل انسان تھااور اس نے کبھی اپنے بیٹوں کے ساتھ سخت کلامی نہیں کی ، بلکہ وہ ان کے پاس بیٹھ جاتا اور ان کو دلائل دے کر سمجھانے کی کوشش کرتا ۔ ’ پیارے بیٹو ! ‘ رحم دل والد نے ایک دن بہت پیار سے کہا۔ ’تم لوگ ابھی بہت کمسن ہو، اور اپنا تمام وقت کھیل کود میں گزارتے ہو۔ لیکن اگر تم نے اس عمر میں محنت کرنا نہ سیکھا تو جب تم لوگ بڑے ہو جاؤگے تو کچھ بھی کرنے کے قابل نہیں ہو گے ‘ ۔ سب بیٹے یک زبان ہو کر بڑے جوش سے کہتے ۔ ’ ابا جان ! آپ بالکل فکر نہ کریں ہم بہت جلد سب کچھ سیکھ لیں گے، ہم وعدہ کرتے ہیں ‘۔

لیکن جیسے ہی ان کے والد انہیں ایک اور موقعہ دینے کے لئے راضی ہو تے تو چاروں بھائی اپنا وعدہ فوراً بھول جاتے۔ اور جلد ہی اپنے پرانے طور طریقوں پر اتر آتے،اور وہ جدھر بھی نکل جاتے شرارتیں کرتے ،تباہی اور بربادی ڈھاتے نظر آتے۔ اگر کوئی ان سے کوئی کام کرنے کے لئے کہتا تو وہ سب طرح طرح کے بہانے بنا دیتے ، جب کہ در اصل یہ چاروں بھائی نہایت سست اور کاہل تھے۔

پھر اسی طرح دن، مہینے اور سال گزر گئے اور یہ چاروں بڑھ کر جوان ہو گئے ۔ انہوں نے پڑھنا لکھنا بالکل نہ سیکھا اور نہ ہی انہوں نے کھیت پر کوئی کام والد کی مدد کے لئے کیا۔ وہ ہمیشہ ایک دوسرے کو اپنی من گھڑت فضول باتوں اور مشکلات کے لئے الزام دیتے رہتے۔ اور ان میں سے کسی ایک نے بھی، کبھی ایک دفعہ بھی اپنے برے طور طریقے کے لئےاپنی ذمہ داری قبول نہیں کی۔

آخر رحیم ایک ضعیف اور بوڑھا آدمی ہو گیا مگر وہ پھر بھی کھیت پر سارا دن خود اکیلا ہی کام کرنے پر مجبور تھا۔ یہ کام ایک بوڑھے آدمی کے لئے بہت محنت کا تھا ، اور رحیم کو وہ دن بہت مشکل لگنے لگےتھے۔

فصل کی پیداوار میں بھی کمی آ گئی اور اس کے ساتھ ہی اس دولت میں بھی جو کہ وہ فصل کو منڈی میں بیچ کر حاصل کر سکتا تھا۔ رحیم اور اس کی بیوی اپنے مستقبل کے بارے میں بہت پریشان تھے، مگر وہ چاروں بھائی ان واقعات کےبارے میں بالکل بھی پریشان نہ ہوتے تھے۔ کبھی کبھار وہ کھیت میں اپنے والد کی مدد کرنے چلے جاتے،لیکن زیادہ تر اپنے بچاؤ کی خاطر بہانے بناتے رہتے۔وہ تمام دن صرف نکمےّ بیٹھے رہتے، کھاتے پیتے اور آرام سے سوتے۔

اگرکبھی کوئی اکبر سے کہتا کہ وہ کھیت پر جا کر اپنے والد کی مدد کرے،تو وہ کہتا کہ ’ دوسرے تینوں میں سے کوئی جا کر مدد کرے کیوں کہ میرے تو سر میں درد ہے‘ وغیرہ، وغیرہ ۔اسی طرح ہر ایک بھائی کو جب بھی کوئی کسی کام کرنے کو کہتا تو وہ اسی قسم کا بہانہ بنا دیتا، اور ان میں سے ہر ایک اپنے دوسرے بھائیوں میں سے کسی ایک کو وہ کام کرنے کے لئے پیش کر دیتا۔

پھر ایک وقت ایسا آیا کہ رحیم واقعی اس قدر ضعیف اور بیمار ہو گیا کہ کوئی کام کرنے کے قابل نہیں رہا ، اور اس نے حقیقت میں یہ محسوس کیا کہ وہ زیادہ دیر تک زندہ نہیں رہ سکے گا۔ رحمدل باپ اپنے ناکارہ بیٹوں کے بارے میں بہت فکر مند ہو گیا، اور اس کے دماغ کو بہت سے مشکل سوالات نے گھیر لیا۔ اسے یہ نہیں معلوم تھا کہ جب وہ نہیں ہو گا تو ان کا کیا ہو گا؟ انہوں نے کوئی ہنر نہیں سیکھا تھا اس لئے وہ اپنے لئے روزی کیسےمہیاّ کر سکیں گے؟ ان کے برے اعمال کے باوجود رحیم اپنے بیٹوں کو دل سے چاہتا تھا اور ان کی مدد کرنا چاہتا تھا۔ اس لئے وہ بچارہ ضعیف آدمی بہت ہی غور سے یہ سوچنے لگا کہ کیا کیا جائے؟

بہت دیر غور کرنے کے بعد رحیم کو ایک منصوبہ سمجھ میں آیاجس کے بارے میں اس نے خیال کیا کہ شاید وہ کار آمد ہو سکے، پھر وہ خود بخود مسکرایا اور اس نے اپنی بیوی سے کہا کہ وہ اس کے چاروں بیٹوں کو بلا کر لائے تا کہ وہ اس کے سامنے آ کر بیٹھیں۔ اور اس سے پہلے کہ وہ قبر میں جا سوئے، انہیں اپنی وصیتّ سنائے اور نصیحت کے چند الفاظ بھی کہہ سکے۔ رحیم کی بیوی یہ سن کر بہت پریشان ہو گئی کیونکہ وہ اپنے خاوند کو بہت چاہتی تھی۔ بہر حال اس نے اپنے بیٹوں کو بلایا اور انہیں ان کے والد کی خواہش کے بارے میں بتایا۔ چاروں بھائیوں کو اس بات کا بہت صدمہ ہوا کہ ان کا باپ فوت ہو جائے گا۔ وہ اپنے والد کے قدموں کے پاس اس کی آخری وصیتّ سننے کے لئے بیٹھتے ہی رونے اور آہ و زاری کرنے لگے۔

’ پیارے بیٹو ! ‘ رحمدل باپ نے کہا ۔ ’ میں نے زندگی بھر تم سے محبت کی اور تمہاری دیکھ بھال کی ۔ میں نےواقعی پوری کوشش کی کہ تم خوشی اور آرام و آسائش سے رہو اور میں تمہاری حفاظت کرتا رہا ، لیکن اب میں بوڑھا اور بیمار ہوں اور جانتا ہوں کہ میں جلد ہی مر جاؤں گا ‘۔ بوڑھا پھرکھانسنے لگا، اسکی سانس میں خرخراہٹ تھی ۔ اوراب چاروں بھائی خود دیکھ سکتے تھے کہ ان کا باپ حقیقت میں بہت بیمار تھا۔ ’ لیکن میں نے ایک بہت بڑا خزانہ تم لوگوں کے لئے بچا رکھا ہے‘۔ رحیم نے گفتگو جاری رکھتے ہوئے کہا۔’ تا کہ تمہاری زندگی میرے جانے کے بہت عرصے بعد تک بھی آرام سے گزرتی رہے‘۔

’بہت زمانہ گزرا ، میں نے اپنے کھیت کی زمین میں کسی جگہ ایک بہت بڑا اور بہت گہرا گڑھا کھودا۔ پھر میں نے اس گڑھے میں اس خزانے کو اس وقت کے لئے کہ جب تمہیں اس کی ضرورت پڑے،حفاظت کے ساتھ دفن کر دیا۔ لیکن اب مجھے بالکل یاد نہیں رہا کہ وہ کس جگہ پر ہے‘۔

چاروں بھائی ایک دوسرے کی طرف تعجب سے دیکھنے لگے، لیکن وہ اپنے باپ کے خزانے کے تصوّر سے کافی خوش بھی نظر آ رہے تھے۔

’میرے مرنے کے بعد تمہیں اس کا سراغ لگانا ہوگا اور اسے کھود کر نکالنا ہوگا ‘۔ رحیم نے بات جاری رکھی ۔’ پھر تم اپنے چچا سے جو کہ اس وقت خاندان میں سب سے بڑے ہوں گے، درخواست کرنا کہ وہ اس خزانے کو تم چاروں کے درمیان برابر حصوّں میں تقسیم کر دیں۔ اس کے لئے آ پس میں جھگڑے مت کرنا، اپنے چچا کے فیصلے کی تعظیم کرنا۔ یاد رکھو کہ اپنے بڑوں کی عزّت کرنا ہماری تہذ یب کا ایک اہم حصہّ ہے۔ تمہیں ان کی عزّت کرنے کو اپنا فرض سمجھنا چاہیئے‘۔

چاروں بھائی کھیت میں دفن کئے ہوئے خزانے کو فوراً ہی ڈھونڈ نے کے لئے مضطرب نظر آنے لگے۔ رحیم نے یہ ظاہر کیا کہ اس نے اپنے بیٹوں کے اس روّیئے کو دیکھا ہی نہیں، اور اس نے اپنی تقریر جاری رکھی۔

’ ایک اور نصیحت جو کہ میں تمہیں د ینی چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ تم لوگ ایک دوسرے کے ساتھ کبھی مت لڑنا، تمہارے دشمن تمہیں منصوبہ بندی اور ساز باز کرنے کے لئے اکسائیں گے ،لیکن کچھ بھی ہو جائے تم چاروں ہمیشہ متحد رہنا۔ مل جل کر تم سب بہت طاقت ور رہوگے اور کوئی بھی تمہیں نقصان نہیں پہنچا سکے گا۔ اور کسی کو بھی اس خزانے کے بارے میں اس وقت تک مت بتانا جب تک تمہیں وہ مل نہ جائے‘۔

جب رحیم نے اپنی تقریر ختم کی تو اس نے آ نکھیں بند کر لیں،پھر وہ جلد ہی فوت ہو گیا۔اپنے والد کے جنازے اور تدفین کے بعد ان بھائیوں نے اپنے کھیت کے دوسرے سرے سے کھودنے کا فیصلہ کیا۔انہوں نے اب تک اپنی زندگی بہت سستی، کاہلی ، آرام اور آ سائش میں گزاری تھی اس لئے کھیت کےتھوڑے سے حصےّ کو کھودنابھی ان کو بہت مشکل لگا۔ سست اور کاہل سب بھائی جلد ہی ہار کر گھر پر آرام کرنے کے لئے چل دیئے۔

اگلے دن پھر ایسا ہی کیا۔پھر اس سے اگلے دن، اور اس سے بھی اگلے دن ایسے ہی کرتے رہے، یہاں تک کہ آہستہ آہستہ مگر یقیناً کھیت کا زیادہ تر حصہّ بھائیوں نے کھود ہی لیا۔ ان کو اسی طرح کام کرتے مہینہ بھر اورگزر گیا مگر انہیں دفن کیا ہوا خزانہ

نہیں ملا۔ وہ کسی اور سے اس کا ذکر بھی نہیں کرنا چاہتے تھے اور نہ ہی کسی کی مدد لینا چاہتے تھے، کیوں کہ وہ اس خزانے میں کسی اور کو حصہ دار نہیں بنانا چاہتے تھے۔ وہ سب کھدائی کرتے کرتے بہت تھک گئے تھے مگر ان میں سے کوئی بھی اس خزانے کو چھوڑنا نہیں چاہتا تھا۔

آخر کار بھائیوں نے غور کیا کہ انہوں نے پورا کھیت کھود ڈالا لیکن خزانے کا کوئی سراغ نہیں ملا۔ تب انہوں نے خیال کیا کہ ان کے باپ نے خزانہ بہت ہی گہرا دفن کیا ہو گا۔ اس لئے انہوں نے اور بھی زیادہ گہراکھودنے کا فیصلہ کر لیا ۔ ایک اور مہینہ گزر گیا مگر دفن کئے ہوئے خزانے کا کوئی نشان بھی نہیں تھا!

سارا کھیت اب پوری طرح نیچے سے اوپر ہو چکا تھا اور ہمسائے بھی ان بھائیوں کی محنت پر رشک کرنے لگے تھے۔

آخر کار چاروں بھائیوں نے دفن کئے ہوئے خزانے کو کبھی بھی پا لینے کے خیال کو ترک کر دیا۔ مگر یہ دیکھ کر کہ انہوں نے کھیت کو اتنی اچھی طرح تیار کر لیا تھا ، اس لئے انہوں نے وہاں پر اس موسم میں گیہوں کی کاشت کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ جب فصل کاٹنےکا زمانہ آیا تو اس کھیت میں بہت اعلیٰ درجے کا اور بہت مقدار میں گندم پیدا ہوا، جس کو وہ سب بھائی منڈی میں لے گئے اور اسے ہزاروں روپوں میں فروخت کر دیا۔

اپنےوالد کی نصیحت پر چلتے ہوئے سب بھائی اپنی کمائی ہوئی دولت کو اپنے چچا کے پاس لے گئےاور ان سے اس رقم کو چاروں میں برابر تقسیم کرنے کی درخواست کی۔ ان کے چچا چاروں بھائیوں پر فخر کرنے لگے اور بولے ، ’ شاباش ! میرے بھتیجو ! تم نے آخر کار یہ ثابت کر دیا کہ تم میرے محنتی بھائی رحیم کے محنتی بیٹے ہو۔ یہ کھیت جو میرا بھائی تمہارے لئے چھوڑ گیا ہے وہ خود ہی ایک خزانہ ہے۔ اور اگر تم اسی طرح محنت کرتے رہوگے تو تم اس کا ہمیشہ انعام پاتے رہوگے ‘۔

اگلے سال چاروں بھائیوں نے محنت کرکے پھر گندم کی کاشت کی۔ اس دفعہ پیداوار پہلے سے بھی بڑھ کر ہوئی۔اور جب انہوں نے یہ گندم منڈی میں فروخت کی تو انہوں نے پہلے سے بہت زیادہ رقم بنائی۔

کچھ سال تک اسی طرح کام کرنے کے بعد چاروں بھائی کافی امیر ہو گئےاور اپنے کام میں بھی خوش رہنے لگے۔آخر کار یہ واضح ہو گیا کہ اکبر ، اصغر ، ناصر اور بابر نے دفن کئے ہوئے خزانے کے معمےّ کو حل کر لیا، کہ اصل خزانہ تو محنت اور ترتیبی نطام کا صلہ تھا۔چاروں بھائی اپنے والد کی ہوشیاری اور دور بینی پر فخر کرتے تھے، کیوں کہ صرف وہی تھا کہ جس نے ان کو محنت ، نظم و ضبط ، اتحاد اور اپنےبڑوں کی تعظیم کی فضیلت کا سبق دیا تھا۔

ہاتھی والوں کا قصہ

0

ہاتھی والوں کا قصہ

ابرہہ یمن کا حکمران تھا۔ اس نے یمن میں ایک عالیشان کلیسا تعمیر کر کے یمن کے لوگوں میں یہ اعلان کرا دیا کہ آئندہ کوئی شخص حج کے لیے مکہ مکرمہ نہ جائے اور اسی کلیسا کو بیت اللہ سمجھے۔

اس اعلان سے عرب کے لوگوں میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی۔ پھر ان میں سے کسی شخص نے رات کے وقت اس کلیسا میں جا کر گندگی پھیلا دی۔ ابرہہ کو جب یہ معلوم ہوا، تو اس نے ایک بڑا لشکر تیار کر کے مکہ مکرمہ کا رخ کیا۔

راستے میں عرب کے کئی قبیلوں نے اسے روکنے کی کوشش کی۔ لیکن ابرہہ کے لشکر کے ہاتھوں انہیں شکست ہوئی۔ آخر کار یہ لشکر مکہ مکرمہ کے قریب ایک جگہ پہنچ گیا۔ اگلی صبح جب اس نے بیت اللہ کی طرف بڑھنا چاہا۔ تو اس کے ہاتھی نے آگے بڑھنے سے انکار کر دیا۔

اسی وقت اس کی طرف سے عجیب و غریب قسم کے پرندوں کا ایک غول آیا اور لشکر پر چھا گیا۔ ہر پرندے کی چونچ میں تین تین کنکر تھے۔ جو انہوں نے لشکر کے لوگوں پر برسانے شروع کر دیے۔ ان کنکروں نے لشکر کے لوگوں کے جسموں کو چیر کر رکھ دیا۔

یہ عذاب دیکھ کر سارے ہاتھی بھاگ کھڑے ہوئے۔ لشکر کے سپاہیوں میں سے کچھ وہی ہلاک ہو گئے اور کچھ جو بھاگ نکلے وہ راستے میں مرگئے۔ ابرہہ کے جسم میں ایسا زہر سرایت کر گیا کہ اس کا ایک ایک جوڑ گل سڑ کر گرنے لگا۔

اسی حالت میں اسے یمن لایا گیا۔ وہاں اس کے سارے بدن سے خون بہہ بہہ کر ختم ہو گیا۔ اس کی موت سب سے زیادہ عبرت ناک ہوئی۔ اس کے دو ہاتھی بان مکہ مکرمہ میں رہ گئے تھے۔ جو اپاہج اور اندھے ہو گئے۔

اس طرح اللہ پاک نے اپنے گھر کی حفاظت فرمائی اور طاقت پر غرور کرنے والوں کو سزا کا مزہ چکھایا۔ قرآن پاک کی سورۂ فیل میں اللہ پاک نے اس واقعے کو یوں بیان فرمایا۔

“کیا تو نے نہ دیکھا کہ تیرے رب نے ہاتھی والوں کے ساتھ کیا کیا؟ کیا ان کے مکر کو بےکار نہیں کر دیا؟ اور ان پر پرندوں کے جھنڈ کے جھنڈ بھیج دیے۔ جو انہیں مٹی اور پتھر کی کنکریاں مار رہے تھے۔ پس انہیں کھاۓ ہوۓ بھوسے کی طرح کر دیا”۔ (آیت – ١ تا ٥)

Inspiring Quotes About Nature

0

Mother Nature serves as the ultimate source of inspiration. Whenever you’re feeling drained, stepping outside for a breath of fresh air can uplift your mood and shift your perspective. Nature’s beauty often leaves us speechless, filling us with awe and wonder. In those moments, we turn to some of our favorite nature quotes to capture the feelings we can’t put into words. These inspirational quotes about nature will spark your desire to hike a trail, relax by a serene lake, or simply enjoy the beauty of your own backyard. Short and concise, these quotes also make perfect Instagram captions. When words fail, let these timeless reflections from literary greats guide and inspire you. Step outside, connect with nature, and feel rejuvenated!

Inspiring Quotes About Nature

“Nature is not a place to visit, it is home.” –Gary Snyder

“In every walk with nature one receives far more than he seeks.” –John Muir

“What is the good of your stars and trees, your sunrise and the wind, if they do not enter into our daily lives?” –E.M. Forster

“The tree which moves some to tears of joy is in the eyes of others only a green thing which stands in the way. Some see nature all ridicule and deformity, and by these I shall not regulate my propositions. And some see no nature at all. But to the eyes of the man of imagination, nature is imagination itself.” –William Blake

“Some old-fashioned things like fresh air and sunshine are hard to beat.” –Laura Ingalls Wilder

“My wish is to stay always like this, living quietly in a corner of nature.” –Claude Monet

“For a time, I rest in the grace of the world, and am free.” –Wendell Berry

“Every morning was a cheerful invitation to make my life of equal simplicity, and I may say innocence, with Nature herself.” –Henry David Thoreau

“Fresh air is as good for the mind as for the body. Nature always seems trying to talk to us as if she had some great secret to tell. And so she has.” –John Lubbock

“Nature is pleased with simplicity.” –Sir Isaac Newton

Beautiful Urdu Best Quotes

0

Beautiful Urdu best quotes are a blend of wisdom, inspiration, and the timeless charm of the Urdu language. These quotes reflect profound thoughts, life lessons, and the essence of beauty in words. From motivational sayings to poetic expressions, they captivate the soul and leave a lasting impression. Perfect for those who appreciate the elegance of Urdu and seek inspiration through meaningful words.

یہ محبت کے حادثے اکثر دلوں کو توڑ دیتے ہیں تم منزل کی بات کرتے ہو لوگ راہوں میں چھوڑ دیتے ہیں

کچھ دل کی مجبوریاں تھیں کچھ قسمت کے مارے تھے ساتھ وہ بھی چھوڑ گئے جو جان سے پیارے تھے

گزار دیتا ہو ہر موسم مسکراتے ہوے ایسا بھی نہیں کے بارشوں میں تو یاد آیا نہیں

مجھے صبر کرنے کی دیر ہے تم اپنا مقام کھو دو گے

اب نہیں رہا انتظار کسی کا جو ہوں خود کہ لیے ہوں

علاقہ غیر کو سیراب کر رہی تھی وہ نہر رسیلے ہونٹ کہیں اور خشک ہو رہے تھے

Sad Quotes in Urdu

0

Sad quotes are the heart’s voice, expressing emotions and feelings through words. They reflect sorrow, loneliness, and the pain of the heart, capturing moments in life when we feel alone. The depth and beauty of the Urdu language make these sad quotes even more captivating, presented in heart-touching poetry and prose.

Sad Quotes in Urdu

 

اور ہمیں تو کوئی کھونے سے بھی نہیں ڈرتا

 

ایسے بھلاۓ جاؤ گے کہ جیسے کبھی تھے ہی نہیں

Relationship Quotes in Urdu

0

Discover the beauty of relationships through heart-touching Urdu quotes! This blog post brings you a collection of meaningful and inspiring relationship quotes in Urdu that celebrate the essence of love, friendship, and family bonds. Whether you’re looking to express your feelings, share emotions with loved ones, or find comfort in words, these quotes will resonate deeply. Dive into the magic of Urdu poetry and sayings that capture the depth and charm of human connections. Perfect for anyone who appreciates the elegance of Urdu language and values the power of relationships!

اکیلے وارث ہو تم
میری بے شمار چاہتوں کے

وہ مجھے اچھا یا برا نہیں لگتا
وہ مجھے بس میرا لگتا ہے

کسی اور کو سوچنے کی گنجائش نہیں باکی
بس تم پر ہی ختم ہے یہ داستان میری

دنیا کو ہر خوشی چاہیے اور
مجھے ہر خوشی میں بس تم

سرے آم مجھے یے شکایت ہے زندگی سے
کیوں ملتا نہیں مجاز میرا کسی سے

مر بھی جاؤں تو کہاں لوگ بھلا ہی دیں گے
لفظ میرے مرے ہونے کی گواہی دیں گے

اک وجہ یہ بھی ہے محبت کی
مجھے نفرت کا تجربہ نہیں ہے

کبھی کبھی پتھر کے ٹکرانے سے آتی نہیں خراش
کبھی اک ذرا سی بات سے بھی انسان بکھر جاتا ہے

ہم تیری زندگی سے یوں جائیں گے
جیسے حادثے میں جان جاتی ہے

Motivational Quotes in Urdu

0
xr:d:DAF0dVX6XaA:8,j:2645148405449832508,t:23111721

Motivational Quotes in Urdu

منزلیں ہمیشہ ان ہی کو ملتی ہیں جو منزلوں کو تلاش کرتے ہیں

اپنے کل کو بہتر کرنے کےلئے.. اپنا آج سنوارو

بہترین دنوں کے لیے برے دنوں سے لڑنا پڑتا ہے

ہجوم کے ساتھ غلط راہ پر چلنے سے بہتر ہے کے آپ تنہا راہ ہدایت پر چل پڑیں

شخصیت میں عاجزی نہ ہوتو معلومات میں اضافہ علم کو نہیں بلکہ تکبر کو جنم دیتا ہے

تم دوسروں کے راستے کی رکاوٹیں دور کرتے جاؤتمہاری اپنی منزل کا راستہ آسان ہوتا چلا جائے گا

07 Urdu Best Quotes

0
07 Urdu Best Quotes

یہ محبت کے حادثے اکثر دلوں کو توڑ دیتے ہیں تم منزل کی بات کرتے ہو لوگ راہوں میں چھوڑ دیتے ہیں

کچھ دل کی مجبوریاں تھیں کچھ قسمت کے مارے تھے ساتھ وہ بھی چھوڑ گئے جو جان سے پیارے تھے

علاقہ غیر کو سیراب کر رہی تھی وہ نہر رسیلے ہونٹ کہیں اور خشک ہو رہے تھے

مجھے صبر کرنے کی دیر ہے تم اپنا مقام کھو دو گے

گزار دیتا ہو ہر موسم مسکراتے ہوے ایسا بھی نہیں کے بارشوں میں تو یاد آیا نہیں

اب نہیں رہا انتظار کسی کا جو ہوں خود کہ لیے ہوں

قیامت خیز ہیں آنکھیں تمہاری تم آخر خواب کس کے دیکھتی ہو

!بعد میں

0

!بعد میں

آسکر ہر روز اپنے طریقے سے سب کچھ کیا کرتا تھا۔ آسکر جو چاہتا کھاتا، جب چاہتا کھیل کھیلتا اور جب چاہتا سوجاتا۔ اگر اس کی ماں اسے اپنی صفائی کرنے یا رات کے کھانے کے لیے نیچے آنے کو کہتی، تو وہ چیختا کہ ‘بعد میں!’ اور جو کچھ وہ کر رہا ہوتا اسے جاری رکھتا۔

ایک دن، آسکر پارک میں اپنے بہترین دوستوں کے ساتھ کھیلنے کے بعد اسکول سے دیر سے گھر آیا۔

میں گھر ہوں!’ اس نے دالان میں جمائی لی ۔ ساری دوپہر کھیل کر وہ تھک گیا تھا۔

‘ہیلو، ہنی!’ آسکر کی ماں نے واپس جواب دیا۔

آسکر اگلا کام کرنے چلا گیا جو اس کی روزانہ کی فہرست میں تھا۔ اس نے الماری سے کافی اسنیکس لیے اور پھر سورج غروب ہونے تک ویڈیو گیمز کھیلتا رہا۔ اس کے اردگرد کمرہ انتہائی تاریک ہونے لگا۔ صرف ٹی وی سے روشنی آ رہی تھی ، جس سے ایک آواز پیدا ہو رہی تھی۔

‘اوہ، اوہو!’ آسکر نے کنٹرولر کو صوفے پر مارا۔ اس نے مٹھی بھر کرسپس اٹھائے ۔ ان میں سے نصف اس کے منہ تک پہنچنے سے پہلے ہی ٹکڑے ٹکڑے ہو گئے تھے۔

 

 

‘مجھے یہاں ایک موقع دو!’ اس نے کھیل میں اپنے دوستوں سے کہا۔ انہوں نے اونچی آواز میں جواب دیا۔

‘آسکر!’ اس کی ماں کچن سے چلائی۔

اس نے کوئی جواب نہیں دیا۔

‘دوستو یہاں آؤ!’ وہ اسکرین پر چلایا۔

‘آسکر!’ اس کی ماں نے دہرایا۔

اس بار وہ زور سے چلائی تھی، اور وہ تھوڑی تھکی ہوئی لگ رہی تھی۔

‘ہاں؟!’ آسکر نے اپنا ہیڈسیٹ اتار دیا۔

‘رات کا کھانا تیار ہے!’

آسکر نے آنکھیں گھمائیں جب اس نے اپنا ہیڈسیٹ دوبارہ پہن لیا اور خود کو صوفے پر  برجمان کر لیا۔

‘بعد میں!’ اس نے واپس جواب دیا ۔

بعد میں ، اور آسکر کی ماں اس کے کمرے میں چلی گئی۔ وہ اس کے کھانے کے لیے کھانے کی پلیٹ لے گئی۔ وہ اچانک دروازے کے اندر ہی رک گئی۔

‘آسکر، کیا تم اس گندگی کو صاف کر سکتے ہو؟’

آسکر نے جتنا زیادہ کھایا تھا، اتنے ہی زیادہ چھوٹے چھوٹے ٹکڑے اس کے ارد گرد بکھرے ہوئے تھے۔ وہ صوفے پر جمع  شدہ بچ جانے والے ریپرز اور خالی پیکجوں سے گھرا ہوا تھا۔

آسکر نے اپنی ماں کو دیکھا۔

‘بعد میں!’ وہ ویڈیو گیم کے شور پر چیخا۔

اس کی ماں نے ایک آہ بھری جب وہ گندگی صاف کرنے لگی۔

اگلے دن، آسکر ناراض اور مایوس گھر آیا کیونکہ اسے اسکول میں امتحان مشکل محسوس ہوا تھا ۔ اس نے اپنے آپ کو  لطف اندوز کرنے کے طور پر کچھ کیک کھانے کا فیصلہ کیا۔

آسکر جیسے ہی پہلا نوالہ لینے ہی والا تھا کہ اس کی ماں نے اسے دوسرے کمرے سے بلایا۔ اس نے آہ بھری، اپنا کیک نیچے رکھا اور اپنی ماں سے بات کرنے کے لیے چلا گیا۔

وہ اکھڑا ہوا نظر آرہا تھا۔ اس کے بازو بندھے ہوئے تھے۔ آسکر جو لفافہ ابھی ابھی گھر لایا تھا وہ پھٹا ہوا تھا، اور اس کے ہاتھ میں ایک خط تھا۔

‘آسکر، ہمیں اسکول میں ہونے والی کسی چیز کے بارے میں بات کرنے کی ضرورت ہے۔’

اس نے اسے اپنے پاس بیٹھنے کا اشارہ کیا۔

آسکر جھپٹا مار کر بیٹھ گیا۔ اس نے سوچا کہ وہ جانتا ہے کہ کیا ہونے والا ہے۔

آسکر، میں نے تمہاری استانی کا یہ خط پڑھا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ آپ اپنے ٹیسٹوں میں دھوکہ دے رہے ہیں اور اپنے دوست کے کام کی نقل کر رہے ہیں۔

آسکر کو اچانک غصہ آگیا۔ اس نے صرف اس لیے نقل کیا تھا کہ اسے اس میں سے کچھ سمجھ نہیں آتی تھی ۔

‘ خیر ، وہ مجھے اس کی نقل کرنے دیتا ہے!’ اس نے غصے کے ساتھ ایک آہ بھری اور بازو جوڑ لیے۔

اس کی ماں نے بھی ایک آہ بھری لیکن پھر اسے ہلکی سی مسکراہٹ دی۔

‘ کوئی بات نہیں ، آسکر. دیکھو، اگر آپ جدوجہد کر رہے ہیں، میں مدد کر سکتی ہوں۔ چلو آج رات شروع کرتے ہیں، ٹھیک ہے؟

آسکر تھکا ہوا اور تنگ آچکا تھا۔ سب سے پہلے، اس کی استانی نے اس کے بارے میں اس کی ماں کو بتایا اور پھر اس کی ماں نے اس کی استانی کا ساتھ دیا! وہ اس معاملے سے دور کیوں نہیں رہ سکتی تھی؟

 

 

وہ چھلانگ لگا کر اپنے قدموں پر آگیا۔ اس کے ہاتھ پہلوؤں سے جکڑے ہوئے تھے۔

‘بعد میں!’ اس نے چیخ کر کہا۔ وہ بھاگتا ہوا اپنے بیڈ روم میں چلا گیا۔

اس رات کے بعد، آسکر بڑبڑایا جیسا کہ اس نے اپنے آپ کو بیڈ پر گرایا اور اپنے بستر پر پہلو پر پہلو تبدیل کر رہا تھا ۔ وہ سو نہ سکا۔

ہر ایک کو ہر وقت سب کچھ کرنے کی ضرورت کیوں پڑتی تھی؟ وہ اسے وہ کرنے کیوں نہیں دیتے جو وہ چاہتا تھا؟ اس کی خواہش تھی کہ سب اس کا پیچھا کرنا چھوڑ دیں ۔ اس نے خود سے وعدہ کیا کہ وہ مستقبل میں اپنے لیے سب کچھ کرے گا، چاہے اس کا مطلب امتحان میں دھوکہ دہی ہو۔

اس رات آسکر نے خواب دیکھا کہ وہ اپنا پسندیدہ اسنیکس کھاتے اور دن بھر اپنے بہترین دوستوں کے ساتھ پارک میں کھیلتا رہا۔

اگلی صبح آسکر گہری نیند سے چونک گیا۔ اس کی کھڑکی کے باہر ایک گرج چمک اٹھی۔ بارش شیشے پر زور سے پڑی۔

‘ماں؟’ آسکر نے خاموش گھر  میں پکارا۔

خاموشی نے اسے جواب دیا۔

وہ نیچے کی طرف بھاگا لیکن وہاں کوئی نہیں تھا۔ آسکر نے بس کندھے اچکا دیے، کبھی کبھی اس کی ماں کو آخری لمحات میں کام پر بلایا جاتا تھا۔ وہ عام طور پر اسے بتانے کے لیے ایک نوٹ چھوڑ دیتی تھی کہ اس نے اس کا پسندیدہ ناشتہ بنایا ہے اور اسے لپیٹ کر کاؤنٹر پر رکھ دیا ہے۔ اس نے ہر طرف نظر دوڑائی لیکن کوئی نوٹ یا ناشتہ نظر نہیں آیا۔

‘اوہ اچھا،’ آسکر نے اپنے آپ سے بلند آواز میں کہا۔ اس نے ناشتے کے لیے اپنے پسندیدہ اسنیکس پکڑے۔

آسکر بدحواسی کے ساتھ اسکول چلا گیا، یہ یاد کرتے ہوئے کہ اس دن اسے ایک اور امتحان کا سامنا کرنا  ہو گا۔ جب وہ کلاس میں پہنچا تو اسے احساس ہوا کہ وہ جس دوست سے عام طور پر نقل کرتا تھا وہ کہیں بھی نہیں تھا۔ اس نے آسکر کو نہیں بتایا تھا کہ وہ وہاں نہیں ہوگا۔ ایسا لگتا تھا کہ اس نے اساتذہ کو بھی نہیں بتایا تھا۔ جب آسکر نے ان سے پوچھا تو وہ بالکل بے خبر تھے۔

آسکر بھی اس دن اسکول کے بعد گھر آنے سے زیادہ خوش نہیں تھا۔ امتحان کی وجہ سے وہ ناخوش تھا۔ آسکر کو بارش سے نفرت تھی، لیکن ایسا نہیں لگتا تھا کہ وہ رکنے والی ہے۔ بارش کا مطلب تھا کہ وہ باہر رہنے اور کھیلنے کے قابل نہیں تھا، لیکن جس دوست کے ساتھ وہ گھومنا چاہتا تھا وہ بھی غائب ہو گیا تھا۔ تو ویسے بھی اس کے ساتھ کھیلنے والا کوئی نہیں تھا۔

‘ٹھیک ہے، کم از کم میں اب گھر ہوں،’ اس نے سوچا۔

‘میں واپس آ گیا ہوں!’ اس نے خالی گھر میں اعلان کیا۔

اس کی ماں ابھی تک کہیں نہیں ملی تھی۔

آسکر کے چہرے سے مسکراہٹ غائب ہو گئی۔ یہ عجیب تھا۔ عام طور پر، اگر اس کی والدہ زیادہ دیر تک گھر سے دور رہتی تو وہ اس کی دیکھ بھال کے لئے کسی اور کا انتظام کیا کرتی تھی۔

اس نے کندھے اُچکائے۔

‘میں بعد میں اس کی فکر کروں گا،’ اس نے خود سے کہا۔

اس نے اپنا پسندیدہ ویڈیو گیم کھیلنا شروع کیا۔ اس نے بہت سارے اسنیکس کھائے، رات کا کھانا چھوڑ دیا اوروہ اس رات دیر سے سویا۔

صبح ہو گئی۔ آندھی اور بارش نے آسکر کی کھڑکی پر زور سے دستک دی اور ٹکرائی۔

‘ہفتہ کا دن ہے!’ آسکر ایک پرجوش مسکراہٹ کے ساتھ اٹھا۔ اسے یاد آیا کہ وہ اور اس کی ماں کئی ہفتوں سے ایک دن باہر جانے کا منصوبہ بنا رہے تھے۔

آسکر نیچے کی طرف بھاگا لیکن جب وہاں کوئی نہیں تھا تو رک گیا۔ آخرکار اسے فکر ہونے لگی۔ اس دن آسکر نے ہر وہ جگہ دیکھی جہاں اس کی ماں جا سکتی تھی۔ اس نے اپنے جاننے  والوں سب کو بلایا لیکن کسی نے جواب نہیں دیا۔ اس نے شہر کے ارد گرد پوچھا، لیکن بارش کی وجہ سے شاید ہی کوئی آس پاس تھا۔ آسکر جن لوگوں کو جانتا تھا اور ڈھونڈ سکتا تھا، ان میں سے کسی نے اس کی ماں کو نہیں دیکھا تھا۔

آسکر مایوسی محسوس کرتے ہوئے گھر واپس آیا۔ اس نے محسوس کیا کہ وہ رو رہا ہے جب وہ باورچی خانے میں تمام گندگی کے نیچے کھانے کے لئے کچھ تلاش کر رہا تھا۔ گھر تباہی کا شکار تھا۔ آسکر کو اتنے کوڑے کے نیچے اپنے پسندیدہ کھلونے بھی نہیں مل سکے۔

آسکر اس رات سونے کے لیے بہت پریشان تھا۔ اس نے کھڑکی سے آسمان کی طرف دیکھا۔

‘میں معافی چاہتا ہوں. مجھے بہت افسوس ہے،’ اس نے بلند آواز میں کہا۔ ‘میرا مطلب ہر اس شخص کے لیے نہیں تھا جو میری پرواہ کرتا ہے کہ وہ چلا جائے۔ میں ایک وقفہ چاہتا تھا، لیکن اس طرح نہیں! میں چاہتا ہوں کہ سب کچھ معمول پر آجائے۔ براہ کرم، براہ کرم، میرا یہ مطلب نہیں تھا کہ ایسا ہو۔

اگلی صبح، آسکر کے سوئے ہوئے چہرے پر چمکتا ہوا سورج چمکا۔ وہ تازگی محسوس کرتے ہوئے اٹھا۔ وہ ایک لمحے کے لیے سب کچھ بھول گیا تھا۔ اچانک اسے یاد آیا۔

آسکر نیچے کی طرف بھاگا، ایک وقت میں دو سیڑھیاں پھلانگتا ہوا ،  گرنے سے بچنےکی کوشش کرتے ہوئے جب اس نے اپنی ماں کو پکارا۔

اسے دیکھتے ہی وہ لینڈنگ پر رک گیا۔ وہ مسکرائی جب وہ اسے گلے لگانے کے لیے بھاگا۔

‘ آپ واپس آگئی ہو! آپ واپس آگئی ہو!’ اس نے رو کر پکارا۔

وہ ہنسی اور اسے مضبوطی سے تھام لیا۔ ‘کیا تم نے کوئی برا خواب دیکھا ہے، جان؟’

اس نے اپنا سر ہلایا جب اس نے اسے  زور سے گلے لگایا اور وہ زور سے ہنسی،

آسکر نے اس ہنسی کو بہت یاد کیا تھا۔

‘اب چلو۔ جمعہ ہے، اسکول کے لیے تیار ہو جاؤ ورنہ پھر دیر ہو جائے گی۔’

آسکر نے اس کے گال پر بوسہ دیا۔

‘بعد میں!’ اس کی زبان کی نوک پر تھا۔ یہ اتنی پرانی عادت تھی۔ تاہم، اس نے ایک گہرا سانس لیا اور کہا، ‘ٹھیک ہے! میں ابھی تیار ہوتا ہوں۔