Home Blog Page 4

جنت اور جہنم کیسی ہوگی؟

0

جنت اور جہنم کیسی ہوگی؟

مرنے کے بعد دوسری زندگی، جو ہمیشہ رہے گی۔ اس میں ہر انسان کی آخری منزل ہے جوکہ جنت ہے یا پھر جہنم۔ لیکن آخر یہ جنت اور جہنم ہے کیا؟

کم و بیش تمام مسلمانوں کے ذہینوں میں اتنا تصور موجود ہے کہ اللہ تعالی ایمان لانے والوں اور نیک عمل کرنے والوں کو آخرت میں انعام و اکرام سے نوازیں گے۔ جوکہ جنت کی صورت میں ہونگے۔ جہاں وہ عیش و آرام کی زندگی بسر کریں گے۔

جبکہ ایمان نہ لانے والوں اور برے اعمال کرنے والوں کو آخرت میں اللہ تعالی مختلف قسم کے عذاب دیں گے۔ جوکہ دوزخ کی صورت میں ہوگا۔ جہاں وہ تکلیف دہ زندگی بسر کریں گے۔

جنت

پہلے ہم اللہ کی رحمت یعنی جنت کے بارے میں قرآن و احادیث کی روشنی میں آپ کو چند تفصیلات بتاتے ہیں۔

جنت کی چوڑائی زمین اور آسمان کے برابر ہے۔ (سورہ آل عمران آیت نمبر ایک سو تینتیس)

جنت کے پھل اور بہاریں دائمی ہوں گی۔ (سورہ رعد آیت نمبر پینتیس)

جنت میں بھوک اور پیاس نہیں ہوگی۔ (سورۃ طحہ آیت نمبر ایک سو اٹھارہ)

اہل جنت سونے کے کنگن اور سبز ریشم کے لباس پہن کر تکیے دار مسندوں پر مزے کریں گے۔ (سورہ کہف آیت نمبر اکتیس)

اہل جنت عقل پر اثر انداز نہ ہونے والی سفید رنگ کی لذیذ شراب پئیں گے۔ (سورۃ صافات آیت نمبر چھیالیس – سینتالیس)

اہل جنت کے لیے ہیروں اور موتیوں جیسی شرمیلی نگاہوں والی خوبصورت بیویاں ہوں گی جنہیں اس سے پہلے کسی جن یا انسان نے چھوا تک نہیں ہو گا۔ (سورۃ رحمٰن آیت نمبر چھپن – اٹھاون)

اب چند احادیث بیان کریں گے۔
جنت میں بیماری بڑھاپا اور موت نہیں ہو گی۔ (مسلم شریف)

اگر جنتی عورت اپنے کنگن سمیت دنیا میں جھانک لے تو سورج کی روشنی کو اس طرح ختم کر دے گا۔ جس طرح سورج کی روشنی تاروں کو ختم کر دیتی ہے۔ (ترمذی شریف)

اگر جنتی خاتون دنیا میں ایک دفعہ جھانک لے تو مشرق سے مغرب کے درمیان ہر چیز کو روشن کر دے اور ساری فضا کو خوشبو سے معطر کر دے۔ (بخاری شریف)

جنت کے محلات سونے اور چاندی کی اینٹوں سے بنے ہیں۔ اس کا گارا تیز خوشبو والا مشک ہے۔ اس کے سنگریزے موتی اور یقوت کے ہیں اور اس کی مٹی زعفران کی ہے۔ (ترمذی)

جنت کے سو درجات ہیں۔ ہر درجے کے درمیان زمین و آسمان کے برابر فاصلہ ہے۔ (ترمذی)

جنت کے پھلوں کا ایک گوشہ زمین و آسمان کی ساری مخلوق کے کھانے سے بھی ختم نہیں ہوگا۔ (مسند احمد)

جنت میں ایک درخت کا سایہ اس قدر طویل ہوگا کہ اس کے سائے میں ایک گھوڑ سوار سو سال تک چلتا رہے۔ تب بھی سایہ ختم نہیں ہوگا۔ (بخاری)

جنت میں کمان برابر جگہ ساری دنیا اور دنیا بھر کی تمام نعمتوں سے زیادہ قیمتی ہے۔ (بخاری)

حوض کوثر پر سونے اور چاندی کے پیالے ہوں گے جن کی تعداد آسمان کے ستاروں کے برابر ہو گی (مسلم)

جہنم

اب اللہ پاک کے غضب و جلال یعنی جہنم کے بارے میں کچھ آیات ملاحظہ فرمائیں

جہنمیوں کے لیے آگ کے لباس کاٹے جائیں گے۔ ان کے سروں پر کھولتا ہوا پانی ڈالا جائے گا۔ جس سے ان کی کھالیں ہی نہیں۔ بلکہ پیٹ کے اندر کے حصے تک گل جائیں گے۔ (سورہ حج آیت نمبر انیس – بیس)

جہنمیوں کے لیے آگ کا اوڑھنا اور آگ کا بچھونا ہوگا۔ (سورہ العراف آیت نمبر اکتالیس)

جہنمیوں کی گردنوں میں طوق ہاتھوں میں زنجیریں اور پاؤں میں بیڑیاں پہنا کر آگ میں گھسیٹا جائے گا۔ (سورہ حاکہ آیت نمبر تیس – اکتیس) (سورہ مومن آیت نمبر اکہتر – بہتر)

جہنمیوں کو جہنم میں آگ کے پہاڑ سعود پر چڑھا دیا جائے گا۔ (سورہ مدثر آیت نمبر سترہ)

جہنمیوں کو پینے کے لیے زخموں سے بہنے والے خون اور پیپ کا آمیزہ دیا جائے گا۔ (سورہ ابراہیم آیت نمبر سولہ)

غلیظ اور بدبودار کھولتا ہوا پانی دیا جائے گا جو منہ سے لگاتے ہی سارے چہرے کو بھون ڈالے گا۔ (سورہ کہف آیت نمبر انتیس)

بدمزہ بدبودار کڑوا اور کانٹے دار درخت جہنمیوں کو کھانے کے لیے دیا جائے گا۔ (سورة الغاشية آیت نمبر چھ)

جہنم میں جہنمیوں کو مارنے کے لیے لوہے کے غرض ہوں گے۔ (سورہ حج آیت نمبر اکیس)

جہنمیوں کو تنگ و تاری کوٹھڑیوں میں ٹھونس دیا جائے گا جہاں وہ موت کی تمنا کریں گے لیکن موت نہیں آئے گی۔ (سورہ فرقان آیت نمبر تیرہ)

جہنم کے بارے میں چند احادیث مبارکہ بھی ملاحظہ کر لیجیے۔

جہنم میں اونٹوں کے برابر سانپ ہوں گے۔ جن کے ایک مرتبہ کاٹنے سے جہنمی چالیس سال تک زہر کا اثر محسوس کرتا رہے گا۔ اور بچھوخچروں کے برابر ہوں گے۔ جن کا ایک مرتبہ کاٹنے سے جہنمی چالیس سال تک زہر محسوس کرتا رہے گا۔ (مسند احمد)

جہنمی کا ایک دانت احد پہاڑ کے برابر ہوگا۔ (مسلم)

جہنمی جہنم میں اس قدر آنسو بہائیں گے کہ ان میں کشتیاں چلائی جاسکیں گی۔ (حاکم)

جہنم میں کافر کے دو کندھوں کا درمیانی فاصلہ تیز روز سوار کی تین دن کی مسافت کے برابر ہوگا۔ (مسلم)

جہنمی کی کھال کی موٹائی بیالیس ہاتھ تقریبا تریسٹھ فٹ ہوگی۔ (ترمذی)

جہنم کو قیامت کے روز کھینچ کر آنے کے لیے چار ارب نوے کروڑ فرشتے مقرر کیے جائیں گے۔ (مسلم)

جہنم کی گہرائی اس قدر ہے کہ اس کی تہہ میں گرنے والا شخص مسلسل ستر برس تک گرتا چلا جائے گا۔ (مسلم)

جنت اور جہنم کے بارے میں قرآن اور حدیث کے حوالے سے یہ ایک مختصر سا تعارف ہے جو ہم نے پیش کیا ہے۔ اللہ تعالی ہم سب کو بارگاہ رحمت میں جگہ دے اور دوزخ کے عذاب سے پناہ دے۔ آمین یا رب العالمین

قیامت کے روز فرشتوں کو کیسے موت آئیگی؟

0

قیامت کے روز فرشتوں کو کیسے موت آئیگی؟

دنیا کے لوگوں میں سے بدقسمت ترین وہ لوگ ہوں گے۔ جو قیامت کا منظر کو خود اپنی آنکھوں سے دیکھیں گے۔ اس روز یعنی قیامت کے دن سے پہلے ایک دم ایک خوفناک آواز آئے گی۔ جس کے خوف سے سب لوگ سب کچھ بھول جائیں گے۔

اس خوفناک آواز کے بعد سورج پھٹ جائے گا، تارے ٹوٹ جائیں گے، چاند بکھر کر ریزہ ریزہ ہو جائے گا اور زمین میں دراڑیں پڑ جائیں گی اور پہاڑ روئی بن جائے گے۔ سمندروں میں آگ لگ جائے گی۔ دنیا تہس نہس ہو جائے گی۔ پھر اس خوفناک آواز کے ساتھ پوری دنیا کو اللہ تعالی موت دے دے گا۔

جب سب کچھ ختم ہو جائے گا۔ پھر پہلے، دوسرے، تیسرے اور اسی طرح ساتویں آسمان تک سب کو موت دے دی جائے گی۔ سب فرشتوں کو گرا دیا جائے گا اور انہیں زیر زبر کر دیا جائے گا۔

پھر رب تعالیٰ فرماۓ گا کہ کون باقی ہے۔ آواز سن کر ملک الموت حضرت عزرائیل کہیں گے کہ یا اللہ مجھ سمیت تیرے چار فرشتے ہیں۔ یہ جبرائیل، میکائیل اور اسرافیل ہیں۔

اللہ تعالی فرمائیں گے کہ جبرائیل اور میکائیل مر جائیں۔ اس پر اللہ کا عرش کہے گا یا اللہ جبرائیل اور میکائیل کو۔ تو اس وقت اللہ تعالی فرمائے گا کہ خاموش میرے عرش کے نیچے موت ہی موت ہے۔

پھر دوبارہ اللہ تعالی فرمائے گا کہ کون باقی ہے۔ جواب آئے گا کہ عرش کے فرشتے یعنی اسرافیل اور عزرائیل۔ پھر اللہ فرمائے گا کہ اسرافیل مر جائے اس وقت اسرافیل سور پھونک رہے ہوں گے اور ان کے ہاتھ سے سور نکل جائے گا اور جا کر اللہ کے عرش پر لگ جائے گا۔

پھر اوپر اللہ اور نیچے صرف عزرائیل علیہ السلام باقی ہوں گے۔ پھر اللہ پوچھے گا کہ کون باقی ہے۔ تو جواب میں عزرائیل علیہ السلام کہیں گے کہ بس اب تو میں ہی باقی ہوں۔

پھر اللہ تعالی فرمائے گا کہ جا تو بھی مر جا تو بھی میری ایک مخلوق ہے۔ پھر اللہ تعالی کہے گا کہ کوئی ہے میرا شریک تو آؤ۔ پھر اللہ تعالی زمین و آسمان کو ایک جھٹکا دے گا۔ اور فرماۓ گا کہ میں یکتا ہوں اور میرا کوئی شیریک نہیں۔ اللہ اکبر

اللہ تبارک و تعالی سے دعا ہے کہ اللہ ہم سب کو ایمان والی زندگی اور ایمان والی موت عطا فرمائے۔ اللہ تعالی ہم سب کو قیامت کی تیاری کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اللہ تعالی ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔ آمین یا رب العلمین

بے پردہ عورت پر اللہ کا عذاب

0

بے پردہ عورت پر اللہ کا عذاب

جیسا کہ ہم نے اکثر سنا کرتے ہیں کہ فلاں جگہ پر فلاں شخص زندہ ہو گیا۔ اس نے مرنے کے بعد کا حال سنایا اور پھر مر گیا۔ اسی قسم کا عذاب قبر سے متعلق ایک واقعہ گلگت میں پیش آیا۔ جس کے بارے میں بتاتے ہیں کہ ایک شخص قبرستان کے پاس سے گزر رہا تھا کہ اس نے کسی قبر سے یہ آواز سنی کہ مجھے نکالو میں زندہ ہوں۔ جب ایک دو مرتبہ اس نے آواز سنی تو اس نے یہ سمجھا کہ یہ میرا وہم ہے۔

لیکن جب مسلسل اس نے یہ آواز سنی تو اس کو یقین ہونے لگا۔ چنانچہ قریب میں ایک بستی تھی۔ وہ شخص اس میں آیا اور لوگوں کو اس آواز کے بارے میں بتا کر کہا کہ تم بھی چلو اور اس آواز کو سنو۔ چنانچہ کچھ لوگ اس کے ساتھ آئے۔ انہوں نے بھی یہی آواز سنی اور سب نے یقین کر لیا کہ واقعی یہ آواز قبر سے آ رہی ہے۔

اب یقین ہونے کے بعد ان لوگوں کو مسئلہ پوچھنے کی فکر ہوئی کہ پہلے علماء سے یہ مسئلہ معلوم کرو کہ قبر کھولنا جائز ہے یا نہیں۔ چنانچہ وہ لوگ محلے کی مسجد کے امام صاحب کے پاس گئے اور ان سے کہا کہ اس طرح قبر سے آواز آ رہی ہے۔ اور میت یہ کہہ رہی ہے کہ مجھے قبر سے باہر نکالو میں زندہ ہوں۔

اس پر امام صاحب نے فرمایا اگر تمہیں اس کے زندہ ہونے کا یقین ہو گیا ہے تو قبر کو کھول لو اور اس کو باہر نکال لو۔ چنانچہ یہ لوگ ہمت کر کے قبرستان گئے اور جا کر قبر کھولی۔ اب جونہی تختہ ہٹایا تو دیکھا اندر ایک عورت برہنہ حالت میں بیٹھی ہوئی ہے اور اس کا کفن گل چکا ہے۔ پھر لوگوں نے کہ وہ عورت کہہ رہی ہے۔ جلدی سے میرے گھر سے میرے کپڑے لاؤ میں کپڑے پہن کر باہر نکلوں گی۔

چنانچہ یہ لوگ فورا دوڑ کر اس کے گھر گئے اور جا کر اس کے گھر والوں کو یہ واقعہ بتایا۔ اس کے کپڑے چادر وغیرہ لے کر آئے اور لا کر کے اندر پھینک دیے اس عورت نے ان کپڑوں کو پہنا اور چادر اپنے اوپر ڈالی۔ پھر تیزی سے بجلی کی طرح اپنے قبر سے نکلی اور دوڑتی ہوئی اپنے گھر کی طرف بھاگ گئی۔ گھر جا کر اس عورت نے ایک کمرے میں چھپ کر اندر سے کنڈی لگا لی۔

اب جو لوگ قبرستان آئے تھے دوڑ کر اس کے گھر پہنچے۔ ان کو وہاں جا کر معلوم ہوا کہ اس نے اپنے کمرے کے اندر سے کنڈی لگا رکھی ہے۔ ان لوگوں نے دستک دی کہ کنڈی کھولو۔ اندر سے اس عورت نے جواب دیا میں کنڈی تو کھول دوں گی لیکن کمرے کے اندر وہ شخص داخل ہو جس کے اندر مجھے دیکھنے کی تاب ہو۔ اس لیے کہ اس وقت میری حالت ایسی ہے کہ ہر آدمی مجھے دیکھ کر برداشت نہیں کر سکے گا۔

لہذا کوئی دل گردے والا شخص اندر آئے اور آ کر میری حالت دیکھے۔ اب سب لوگ اندر جانے سے ڈر رہے تھے مگر دو چار آدمی جو مضبوط دل والے تھے۔ انہوں نے کہا کہ تم کنڈی کھولو ہم اندر آئیں گے۔ اس نے کنڈی کھول دی اور کچھ لوگ اندر چلے گئے۔

لوگوں نے اندر جاکر دیکھا وہ عورت اپنے آپ کو چادر میں چھپائے بیٹھی ہوئی تھی۔ جب یہ لوگ اندر پہنچے تو اس عورت نے سب سے پہلے اپنا سر کھولا۔ ان لوگوں نے دیکھا کہ اس کے سر پر ایک بھی بال نہیں وہ بالکل خالی کھوپڑی ہے۔ نہ اس پر بال ہیں نہ کھال ہے۔ صرف خالی ہڈی ہڈی ہے۔ لوگوں نے اس سے پوچھا تیرے بال کہاں گئے؟

اس عورت نے جواب دیا کہ جب میں زندہ تھی تو ننگے سر گھر سے باہر نکلا کرتی تھی۔ پھر مرنے کے بعد جب میں قبر میں لائی گئی۔ تو فرشتوں نے میرا ایک ایک بال نوچا اور اس نوچنے کے نتیجے میں بال کے ساتھ کھال بھی نکل گئی۔ اب میرے سر پر نہ بال ہیں نہ کھال ہیں۔

اس کے بعد اس عورت نے اپنا منہ سے کپڑا ہٹایا۔ جب لوگوں نے اس کا منہ دیکھا تو اتنا خوفناک ہو چکا تھا کہ سوائے دانتوں کے کچھ نظر نہیں آیا نہ اوپر کا ہونٹ موجود تھا نہ نیچے کا ہونٹ موجود تھا۔ بلکہ بتیس کے بتیس دانت سامنے جڑے ہوئے نظر آ رہے تھے۔ سوچیے اگر کسی انسان کے صرف دانت ہی دانت نظر آئے۔ تو کتنا ڈر اور خوف معلوم ہوتا ہے۔ اب ان لوگوں نے اس عورت سے پوچھا تیرے ہونٹ کہاں گئے۔

اس عورت نے جواب دیا میں اپنے ہونٹوں پر لپسٹک لگا کر نامحرم مردوں کے سامنے جایا کرتی تھی۔ اس کی سزا میں میرے ہونٹ کاٹ لیے گئے۔ اس لیے اب میرے چہرے پر ہونٹ نہیں ہیں۔

پھر اس عورت نے اپنے ہاتھ اور پیروں کی انگلیاں کھولی لوگوں نے دیکھا کہ اس کے ہاتھ اور پیروں کی انگلیوں میں ایک بھی ناخن نہیں تھا۔ تمام انگلیوں کے ناخن غائب تھے۔ اس سے پوچھا تیری انگلیوں کے ناخن کہاں گئے۔ اس عورت نے جواب دیا ناخن پالش لگانے کی وجہ سے میرا ایک ایک ناخن کھینچ لیا گیا۔ چونکہ میں یہ سارے کام کر کے گھر سے باہر نکلا کرتی تھی۔ اس لیے جیسے ہی میں مرنے کے بعد قبر میں پہنچی تو میرے ساتھ یہ معاملہ کیا گیا۔ اور مجھے یہ سزا ملی کہ میرے سر کے بال بھی نوچ دیے گئے، میرے ہونٹ بھی کاٹ دیے گئے اور ناخن بھی کھینچ لیے گئے۔

اتنی باتیں کرنے کے بعد وہ بے ہوش ہو گئی اور مردہ بے جان ہو گئی جیسے لاش ہوتی ہے۔ چنانچہ ان لوگوں نے دوبارہ اس کو قبرستان میں پہنچا دیا۔

محترم خواتین و حضرات اللہ تعالی کو یہ عبرت دکھانی مقصود تھی کہ دیکھو اس عورت کا کیا انجام ہوا اور اس کو کتنا ہولناک عذاب دیا گیا۔ بے پردہ خواتین اس واقعے سے عبرت لے اور ان گناہوں سے توبہ کرے جس کی سزا بروز قیامت بہت سخت ہے

مہمان کا رزق ایک سچا واقعہ

0

مہمان کا رزق ایک سچا واقعہ

کیا جاتا ہے کہ کسی گاؤں میں ایک صاحب کا اپنی بیوی سے جھگڑا ہوگیا۔ ابھی جھگڑا ختم نہیں ہوا تھا کہ اسی اثناء میں ان کے گھر مہمان آگیا۔ خاوند نے اسے اپنی بیٹھک میں بٹھا دیا اور بیوی سے کہا کہ فلاں رشتہ د مہمان آیا ہے۔ اس کے لیے کھانا بنا لو۔

وہ غصے میں تھی۔ کہنے لگی “نہ تمہارے لیے کھانا ہے نہ تمہارے مہمان کے لیے”۔ وہ بڑا پریشان ہوا کہ لڑائی تو ہماری اپنی ہے۔ اگر رشتے دار کو اس بات کا پتا چل گیا۔ تو خواہ مخواہ خاندان میں بات ہوگی اور خواری الگ سے ہوگی۔

لہذا خاموشی سے آکر مہمان کے پاس چپ چاپ بیٹھ گیا۔ اتنے میں اسے خیال آگیا کہ چلو بیوی اگر روٹی نہیں پکاتی۔ تو سامنے والے ہمارے ہمسائے بہت ہی اچھے لوگ ہیں۔ میں انہیں ایک مہمان کا کھانا پکانے کے لئے کہہ دیتا ہوں۔

چنانچہ وہ ان کے پاس گیا اور کہنے لگا کہ بیوی کی طبیعت آج کچھ خراب ہے۔ لہذا آپ ہمارے مہمان کے لیے کھانے کا انتظام کر دیں۔ انہوں نے کہا ٹھیک ہے۔

وہ مطمئن ہو کر مہمان کے پاس آ کر بیٹھ گیا کہ مہمان کو کم از کم کھانا تو مل جائے گا۔ جس سے میری عزت بھی بچ جائے گی۔ تھوڑی دیر کے بعد مہمان نے کہا کہ ذرا ٹھنڈا پانی تو لا دیجیے۔ وہ اٹھا کہ گھڑے کا ٹھنڈا پانی لاتا ہوں۔ اندر گیا تو دیکھا کہ بیوی تو زاروں قطار رو رہی ہے۔

وہ بڑا حیران ہوا اور کہنے لگا کیا بات ہے۔ اس نے پہلے سے بھی زیادہ رونا شروع کر دیا۔ کہنے لگی بس مجھے معاف کر دیں۔ اس کے خاوند نے کہا کہ بتاؤ تو سہی آخر تمہارے رونے کی وجہ کیا ہے۔ تم ایسے کیوں رو رہی ہو۔

بیوی نے کہا کہ پہلے مجھے معاف کر دیں۔ پھر میں آپ کو اپنی بات سناؤں گی۔ خیر اس نے کہہ دیا کہ جو لڑائی جھگڑا ہوا ہے میں نے وہ دل سے نکال دیا ہے اور تمہیں معاف کر دیا ہے۔

پھر وہ کہنے لگی کہ جب آپ نے آ کر مہمان کے بارے میں بتایا اور میں نے کہہ دیا کہ نہ تمہارے لیے کچھ پکے گا اور نہ ہی تمہارے مہمان کے لیے کچھ پکے گا۔ تو آپ چلے گئے۔ مگر میں نے دل میں سوچا کہ لڑائی تو میری اور آپ کی ہے اور یہ مہمان رشتہ دار ہے۔

ہمیں اس کے سامنے اپنے جھگڑے کی پول نہیں کھولنا چاہیے۔ چنانچہ میں اٹھی کہ کھانا بناتی ہوں۔ جب میں باورچی خانے میں گئی۔ تو میں نے دیکھا کہ جس بوری میں ہمارا آٹا پڑا ہوتا ہے۔ ایک سفید لباس شخص اس بوری میں سے آٹا نکال رہا ہے۔

میں یہ منظر دیکھ کر سہم سی گئی۔ وہ مجھے کہنے لگے کہ اے خاتون! پریشان نہ ہو یہ تمہارے مہمان کا حصہ تھا۔ جو تمہارے آٹے میں شامل تھا۔ اب چونکہ یہ ہمسائے کے گھر میں پکنا ہے۔ اسی لیے وہی آٹا لینے کے لیے میں یہاں آیا ہوں۔

اس واقعے سے ثابت ہوتا ہے کہ مہمان بعد میں آتا ہے۔ جبکہ اللہ تعالی اس کا رزق پہلے بھیج دیتا ہے۔ یہ واقعہ کتاب خطبات فقیر سے ماخوذ کیا گیا۔

مور کو جنت سے کیون نکالا گیا؟

0

مور کو جنت سے کیون نکالا گیا؟

مور جتنا اب خوبصورت ہے۔ اس سے کئی زیادہ جنت میں خوبصورت تھا۔ مور کی خوبصورتی پہ سبھی پرندے فدا تھے۔ لیکن ان سب خوبیوں کے باوجود مور سے ایسی کون سی خطا ہو گئی تھی؟ جس سے اللہ تبارک و تعالی نے مور کو جنت سے نکال دیا۔

اللہ تبارک و تعالی نے جب حضرت آدم علیہ السلام اور اماں ہوا کو پیدا فرمایا۔ اس کے بعد ان کو جنت میں بھیج دیا۔ وہ دونوں جنت میں بہت ہی پرسکون رہتے تھے۔ بہت ہی لذیذہ میوے پھل کھایا کرتے تھے۔ لیکن ایک اناج جس کو کھانے سے اللہ پاک نے انھیں منع فرمایا اور وہ اناج گندم تھا۔

چونکہ شیطان حضرت آدم علیہ سلام کی وجہ سے ہی جنت سے نکالا جا چکا تھا۔ اسی وجہ سے شیطان کی حضرت آدم علیہ سلام سے دشمنی ہو گئی تھی۔ شیطان یہ چاہتا تھا کہ وہ کسی بھی طرح حضرت آدم علیہ سلام کو جنت سے نکال دے اور ساتھ میں اماں حوا کو بھی جنت سے نکال دے۔

جب شیطان کو یہ خبر ہوئی کہ حضرت آدم علیہ کو تمام میوے کھانے کی اجازت ہے۔ لیکن گندم کھانے کی اجازت نہیں ہے۔ تو شیطان انتقام کی آگ دل میں لیے جنت کے دروازے کے پاس بیٹھ گیا۔ اور تین سو سال تک وہاں پر بیٹھا رہا کہ کوئی جنت کے دروازے سے باہر آئے اور شیطان اس سے بات کر سکے۔

ایک دن اچانک سے مور جنت سے باہر آگیا۔ شیطان اس کو دیکھتے ہی بہت خوش ہو گیا۔ شیطان نے پوچھا اے خوبصورت پرندے تم کون ہو؟ مور بولا میں مور ہوں۔ اب تم اپنا تعارف کرواؤ شیطان نے جواب دیا کہ میں عالم قروبیہ کا ایک فرشتہ ہوں۔ میں اللہ پاک کی عبادت سے ایک پل بھی غافل نہیں ہوں۔

میں چاہتا ہوں کہ میں جنت میں جاؤں۔ وہاں کی نعمتوں کا اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کروں۔ شیطان مور سےکہنے لگا کہ تم مجھے جنت کے اندر لے جاؤ۔ میں تمہیں تین ایسی باتیں بتاؤں گا۔ جس سے تمہیں ابدی زندگی حاصل ہو جائے گی۔ تمہیں بڑھاپا اور بیماری نہیں آئے گی۔ تم ہمیشہ جنت میں ہی رہو گے۔ شیطان کی یہ باتیں سن کر۔

لالچ میں آ کر مور نے کہا کہ مجھ میں تو اتنی طاقت نہیں ہے کہ میں تمہیں جنت کے اندر لے جاؤں۔ لیکن ایک سانپ میرا دوست ہے۔ وہ شاید تمہاری مدد سکے۔ یہ کہہ کر مور سانپ کے پاس آیا۔ اس کو ساری بات بتائی۔ سانپ بھی شیطان کی باتوں سے بہت خوش ہو گیا۔

پھر شیطان کو اپنے منہ میں چھپا کے جنت میں داخل ہو گیا۔ اور یوں شیطان اپنی چال میں کامیاب ہو گیا۔ جنت کے تمام نگہبانوں کو یہ معلوم تھا کہ شیطان یہ چال چل رہا ہے۔ اور جنت میں داخل ہو چکا ہے۔ فرشتے شیطان کو جنت سے نکالنے لگے۔

تب ہی اللہ پاک کا حکم ہوا کہ اس کو ابھی تک جنت میں ہی رہنے دیا جائے۔ وہ فرشتے اللہ تبارک و تعالی کے حکم سے رک گئے۔ شاید یہ حضرت آدم علیہ السلام کا امتحان تھا۔ شیطان حضرت آدم علیہ السلام کے پاس اور اماں حوا کے پاس جا کر اپنی محبت کا اظہار کرنے لگا۔

وہ دونوں ہی شیطان کو پہچان نہ سکے۔ کیونکہ ماضی کے مقابلے میں شیطان کی شکل تبدیل ہو چکی تھی۔ شیطان کہنے لگا کہ میں چاہتا ہوں کہ آپ دونوں ہمیشہ جنت میں اسی طرح زندگی گزاریں۔ ہمیشہ خوش رہیں۔ حضرت آدم علیہ السلام اس کی بات بہت غور سے سننے لگے۔ شیطان نے کہا اگر آپ میری بات مان جائیں تو آپ کو جنت کی اور بھی تمام سہولتیں ملیں گی۔

حضرت آدم علیہ السلام شیطان کے بہکاوے میں آ کر کہنے لگے کہ یہ کس طرح ممکن ہے۔ شیطان کہنے لگا ایک گندم کا دانہ اگر آپ دونوں چکھ لیں۔ تو آپ کو ابدی حیا حاصل ہو جائے گی اور آپ جنت میں ہی رہیں گے۔ یہ بات سن کر حضرت آدم علیہ السلام کے دل میں رجحان پیدا ہوا۔ لیکن ان کے دل میں اللہ کی نافرمانی کا خوف غالب آ گیا۔

جبکہ اماں حوا شیطان کی باتوں میں آ گئی۔ جس پر اماں حوا نے حضرت آدم علیہ السلام کو راضی کر لیا۔ پھر اس کے بعد ان دونوں نے اس گندم کے دانے کو چکھ لیا۔ جیسے ہی گندم کا دانہ ان کے اندر گیا۔ تو دونوں کے ستر واضح ہوگئے۔ جس کے بعد دونوں اپنے اپنے ستر چھپانے لگے۔ اور خوفے خدا سے کانپنے لگے۔

اسی دوران اللہ تبارک و تعالی نے فرشتوں کو یہ حکم دیا کہ حضرت آدم علیہ السلام اور اماں حوا دونوں کو زمین پر اتار دو۔ حضرت آدم علیہ السلام کو سری لنکا کے قریب نیچے زمین پہ بھیج دیا۔ جبکہ اماں حوا کو جدہ کی سرزمین پر اتارا گیا۔

جن خوبصورت پیروں سے چل کر مور شیطان کو جنت کے اندر لے کر آیا تھا۔ وہی خوبصورت پاؤں اللہ پاک نے مور سے لے لیے۔ سانپ جو اپنے منہ میں شیطان کو چھپا کر لایا تھا۔ اس کے منہ کی خوبصورت خوشبو کو چھین کر۔ اس میں زہر ڈال دیا گیا۔ پھر مور کے ساتھ ساتھ سانپ کو بھی جنت سے نکال دیا گیا۔

نمازی اور شیطان کا واقعہ

0

نمازی اور شیطان کا واقعہ

ایک شخص اندھیری رات میں فجر کی نماز پڑھنے کے لیے گھر سے نکلا۔ اندھیرے کی وجہ سے اسے ٹھوکر لگ گئی اور وہ منہ کے بل کیچڑ میں گر گیا۔ کیچڑ سے اٹھ کر وہ گھر واپس آیا اور لباس تبدیل کر کے دوبارہ مسجد کی طرف چل دیا۔

ابھی چند قدم ہی چلا تھا کہ دوبارہ اسے ٹھوکر لگی اور وہ دوبارہ کیچڑ میں گر گیا۔ کیچڑ سے اٹھ کر وہ پھر دوبارہ اپنے گھر گیا۔ لباس بدلا اور مسجد جانے کے لیے دوبارہ گھر سے نکلا۔

جیسے ہی وہ اپنے گھر سے باہر نکلا۔ تو اس کے دروازے پر اسے ایک شخص ملا۔ جو اپنے ہاتھ میں روشن چراغ تھامے ہوئے تھا۔ چراغ والا شخص چپ چاپ نمازی کے آگے مسجد کی طرف چل دیا۔ اس مرتبہ چراغ کی روشنی میں نمازی کو مسجد پہنچنے میں کسی دشواری کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔

وہ خیریت سے مسجد پہنچ گیا۔ مسجد کے دروازے پر پہنچ کر چراغ والا شخص رک گیا۔ نمازی اسے چھوڑ کر مسجد داخل ہوگیا اور نماز ادا کرنے لگا۔ نماز سے فارغ ہو کر وہ مسجد کے باہر آیا۔ تو وہ چراغ والا شخص اس کا انتظار کر رہا تھا۔

تاکہ اس نمازی کو چراغ کی روشنی میں گھر چھوڑ آئے۔ جب نمازی گھر پہنچ گیا۔ تو نمازی نے اجنبی شخص سے پوچھا: آپ کون ہے؟ اجنبی بولا سچ بتاؤں تو میں ابلیس ہوں۔ نمازی کی تو حیرت کی انتہا نہ رہی۔

اس اجنبی کی یہ بات سن کر نمازی سوچنے لگا۔ ابلیس شیطان کیسے مجھے مسجد تک چھوڑ سکتا ہے؟ اس کا کام تو لوگوں کو بہکانا ہے۔ تو اس شخص نے بڑی حیرت کے ساتھ ابلیس سے پوچھا: تجھے تو میری نماز رہ جانے پہ خوش ہونا چاہیے تھا۔

مگر تم تو چراغ کی روشنی میں مجھے مسجد تک چھوڑنے آئے۔ ابلیس نے جواب دیا کہ جب تمہیں پہلی ٹھوکر لگی۔ اور تم لباس تبدیل کرکہ مسجد کی طرف پلٹے۔ تو اللہ تعالی نے تیرے سارے گناہ معاف فرما دیے۔

جب تمہیں دوسری ٹھوکر لگی تو اللہ تعالی نے تمہارے پورے خاندان کو بخش دیا۔ جس پر مجھے فکر ہوئی کہ اگر اب تمہیں ٹھوکر لگی۔ تو اللہ تعالیٰ کہیں تمھارے اس عمل کی بدولت تمارے سارے گاؤں کی مغفرت نہ فرما دے۔

اس لیے میں چراغ لے کر آیا ہوں کہ تم بغیر گرے مسجد تک پہنچ جاؤ۔ اس شخص نے جیسے ہی یہ بات سنی۔ تو اس نے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اپنا سر جھکا کر اللہ کا شکر ادا کیا۔ تو دوستو یہ ہے ہمارے رب کی شان۔ سبحان اللہ

بسم اللہ کی برکت کا واقعہ

0

بسم اللہ کی برکت کا واقعہ

کہا جاتا ہے کہ کسی علاقے میں قحط سالی پیدا ہوگئی۔ اس قحط سالی کی لپیٹ میں نہ صرف انسان بلکہ چرند و پرند سب اس کا شکار ہوگئے۔ مویشی مالکان بے حد پریشان تھے۔اس دوران ایک مسجد کے مولوی نے جمعہ کے خطبے میں نہایت یقین کے ساتھ یہ بات بتائی کہ اللہ کا نام لے کر یعنی بسم اللہ پڑھ کر دریا کو حکم دیا جائے تو وہ بھی نافرمانی نہیں کرتا۔

خطبہ سننے والوں میں ایک چرواہا بھی مجود تھا۔ مولوی کی یہ بات اس کے دل میں اتر گئی۔ اور اس بات پر اس کا یقین کامل ہوگیا۔ اس نے واپس آ کر اپنی بکریاں کھولیں اور سیدھا دریا پر چلا گیا۔ اونچی آواز سے بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھا اور دریا کو کہا وہ اپنی بکریاں چروانے کے لیے دوسرے پار جانا چاہتا ہے۔ اور اسے کہا کہ مجھے اپنے اوپر سے گزرنے دے۔

یہ کہہ کر اس نے اپنی بکریوں کو لیا اور دریا پر چلتا ہوا دریا پار کر گیا۔ دریا کے دوسری طرف کاعلاقہ گھاس سے بھرا پڑا ہوا۔ درختوں کے پتے بھی سلامت تھے۔ کیونکہ کسی کو یہاں تک آنے کی رسائی نہیں تھی۔ اس نے خوب اچھی طرح اپنی بکریوں کو سیر کروایا اور واپس لوٹ آیا۔

پھر یہ اس کا معمول بن گیا کہ وہ بکریاں پار چھوڑ کر واپس آ جاتا اور شام کو جا کر بکریاں واپس لے آتا۔ اس کی بکریوں کا وزن دگنا چوگنا ہو گیا۔ لوگ چونک گئے اور اس سے پوچھا کہ وہ اپنی بکریوں کو کیا کھلاتا ہے۔ وہ سیدھا سادھا اور صاف دل نوجوان تھا۔ اس نے صاف صاف بات بتا دی کہ جناب میں تو بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھ کر دریا پر چل کر اپنی بکریاں دوسری طرف چروانے لے جاتا ہوں۔

یہ بات سب نے سنی مگر کسی نے اس چرواہے کی بات پر یقین نہیں کیا۔ کیونکہ یہ ناقابل یقین بات تھی۔ مگر بات ہوتے ہوتے مولوی صاحب کے پاس پہنچ گئی۔ مولوی صاحب نے اس چرواہے کو بلایا اور سارا ماجرا پوچھا۔

اس چرواہے نے مولوی صاحب کو ہی حوالہ بنا لیا کہ مولوی صاحب میں تو آپ کا شکریہ ادا کرنے والا تھا۔ آپ نے جمعہ کے خطبے میں جو نسخہ بتایا تھا کہ بسم اللہ کہہ کر دریا کو بھی حکم دو تو وہ بھی انکار نہیں کرتا۔ تو میں تو بس آپ کے نسخے پر ہی عمل کر رہا ہوں۔

مولوی صاحب حیرت سے اس کے چہرے کو دیکھتے رہے۔ مولوی صاحب نے کہا بھائی صاحب! ایسی باتیں تو ہم ہر جمعہ میں کرتے ہیں۔ فقط ان کا مقصد لوگوں کا ایمان بنانا ہوتا ہے۔ مگر بکریوں والا ڈٹا رہا کہ میں تو بس بسم اللہ کہہ کر پانی پر چلتا ہوں اور بکریوں سمیت پانی پار چلا جاتا ہوں۔

آخر کار مولوی صاحب نے صبح خود یہ تجربہ کرنے کی ٹھانی۔ جسے دیکھنے چرواہے سمیت پورا علاقہ بھی آگیا۔ مجمع زیادہ تھا۔ مولوی صاحب نے ایک دو بار سوچا کہ انکار کر دوں کہ کہیں ڈوب نہ جاؤں۔ مگر وہ جو مولوی صاحب کو کندھے پر اٹھا کر لائے تھے۔ اب بھی جوش و خروش سے اللہ اکبر کے نعرے لگا رہے تھے۔ اور مولوی صاحب کے حق میں تعریفیں کر رہے تھے۔

آخر کار مولوی صاحب نے اپنے ڈر کو دور کرنے کے لیے ایک رسہ منگوایا۔ پہلے اسے ایک درخت کے ساتھ باندھا پھر اپنی کمر کے ساتھ باندھا پھر ڈرتے ڈرتے ڈھیلا ڈھالا بسم اللہ پڑھا اور دریا پر چلنا شروع ہو گئے۔

مگر پہلا پاؤں ہی رکھا تھا کہ پانی میں گر گئے۔ مولوی صاحب ڈوبکیاں کھانے لگے اور پانی کے بہاؤ میں بہنا شروع ہو گئے۔ لوگوں نے کھینچ کھینچ کر باہر نکالا۔ مولوی صاحب کی اس حرکت نے چرواہے کو پریشان کر دیا کہ مولوی صاحب کی بسم اللہ کو یہ کیا ہو گیا ہے؟ کیونکہ اس کا یہ روز کا معمول تھا۔

اس کے اپنے یقین میں کوئی فرق نہ آیا۔ اس نے بسم اللہ کہہ کر بکریوں کو پانی کی طرف اشارہ کیا۔ اور خود ان کے پیچھے چلتا ہوا پار چھوڑ کر واپس بھی آگیا۔ لوگ اسے ولی اللہ سمجھ رہے تھے۔ اور اس کے حق میں نعرے لگا رہے تھے۔ مگر وہ سب سے بے نیاز, سیدھا سادہ انسان تھا۔ وہ مولوی صاحب کے پاس پہنچا اور کہا۔

مولوی صاحب میں آپکی بسم اللہ کی تعریف سے کافی پریشان تھا۔ مگر پانی پر چلتے ہوئے مجھے آپ کی بسم اللہ کی بیماری کا پتہ چل گیا۔ اس چرواہے نے درخت سے بندھی رسی کی طرف اشارہ کیا اور کہا مولوی صاحب یہ ہے۔ آپ کی بسم اللہ کی بیماری آپ کی بسم اللہ کی برکت کو یہ رسہ کھا گیا۔

آپ کو اللہ اور بسم اللہ سے زیادہ اس رسے پر بھروسہ تھا۔ لہذا اللہ نے بھی آپ کو رسی کے حوالے کر دیا۔ پھر کہنے لگا مولوی صاحب آپ بھی کمال کرتے ہو۔ میں نے آپ کے منہ سے سنا اور یقین کر لیا اور میرے اللہ نے میرے یقین کی لاج رکھ لی۔

مگر آپ نے اللہ کا کلام سنا مگر یقین نہیں کیا۔ لہذا آپ کو اللہ نے رسوا کر دیا۔ محترم عزیز دوستو یہی کچھ ہمارا حال ہے۔ ہماری نمازوں اور دعاؤں کا حال بھی یقین سے خالی ہے

اکیلے نہیں

0

اکیلے نہیں

جب ڈیلیسے صرف آٹھ سال کی تھی تو اس کی ماں نے اسے بتایا کہ وہ اپنا گھر چھوڑ کر انگلینڈ چلے جائیں گے۔

ڈیلیسے کی والدہ نے وضاحت کرتے ہوئے کہا، ‘آپ کے والد کو کام تلاش کرنا چاہیے تاکہ ہم آپ کے دادا دادی اور آپ کی آنٹی کی کفالت کے لیے رقم بھیج سکیں۔’

نوجوان لڑکی منیلا میں اپنا گھر چھوڑنا نہیں چاہتی تھی جو کہ فلپائن کا ایک بہت بڑا شہر ہے اور جب اس کی والدہ نے اسے یہ خبر سنائی تو اسے بہت دکھ ہوا۔

‘لیکن میرے تمام دوستوں کا کیا ہوگا؟’ ڈیلیسے نے پوچھا۔ ‘میں انگلینڈ میں کسی کو نہیں  جانتی اور میں اکیلی ہوں گی۔’

اس کی والدہ نے ڈیلیسے کو یقین دلایا کہ یہ ان تینوں کے لیے ایک دلچسپ مہم جوئی والی بات ہونے والی ہے اور جب  وہ انگلینڈ میں اسکول شروع  کرے گی تو ڈیلیسے بہت سے نئے دوستوں سے ملے گی۔ ڈیلیسے کو اپنی ماں کے مہربان الفاظ پر یقین نہیں آیا۔ اسے اپنا گھر پسند تھا اور وہ اسکول جانا پسند کرتی تھی جہاں وہ تمام اساتذہ کو جانتی تھی اور اس کے بہت سے دوست پہلے سے ہی تھے۔

‘مجھے سمجھ نہیں آ رہی کہ ہمیں انگلینڈ کیوں جانا پڑے گا،’ ڈیلیسے نے ایک رات پہلے سوچاجب خاندان نے جانا تھا۔ ‘میں انگلینڈ کے بارے میں کچھ نہیں جانتی۔ مجھے انگریزی بھی زیادہ نہیں آتی اور میں بالکل اکیلی ہو جاؤں گی!’

اس آخری احساس نے نوجوان لڑکی کو مزید اداس کر دیا اور اس نے دل سے خواہش کی کہ وہ منیلا میں اپنی آنٹی یا اپنے دادا دادی کے ساتھ رہ سکے۔

سفر بہت لمبا تھا اور ڈیلیسے بڑے ہوائی جہاز اور ہوائی اڈے پر بھاگنے والے تمام لوگوں سے مغلوب تھی۔

جب خاندان آخر کار انگلینڈ پہنچا تو سب کچھ عجیب سا لگ رہا تھا اور اسے یقین تھا کہ ہر کوئی اس کی طرف دیکھ رہا ہے۔ برمنگھم کے شہر کی عمارتیں بڑی اور سرمئی تھیں اور ڈیلیسے کو گھرجیسا بالکل بھی محسوس نہیں ہوتا تھا۔

پہلا مہینہ اچانک گزر گیا جب خاندان کو رہنے کے لیے ایک گھر مل گیا اور ڈیلیسے کے والد کام کی تلاش میں باہر گئے تاکہ وہ فلپائن میں باقی خاندان کو پیسے واپس بھیج سکیں۔

نوجوان لڑکی بہت اکیلی تھی، اور اگرچہ اس کی ماں اس کے ساتھ کھیل کھیلتی تھی اور اسے ادھر ادھر گھمانے کے لیے باہر لے جاتی تھی، ڈیلیسے اپنے دوستوں کو بہت یاد کرتی تھی اور یہ محسوس کرنے میں  اپنے آپ کو نہیں روک سکتی تھی کہ وہ نئے شہر میں بالکل اکیلی ہے۔ رات کو وہ اپنے بستر پر روتی رہتی تھی اور وہ اکثر خواب دیکھتی تھی کہ اگلے دن اس کے والد اسے جگائیں گے اور بتائیں گے کہ وہ گھر لوٹنے والے ہیں۔ لیکن ہر صبح ڈیلیسے بیدار ہوئی اور اسے احساس  ہوتا کہ شاید وہ پھر کبھی گھر واپس نہیں جائے گی۔

ایک صبح، جب وہ دودھ کے ساتھ اناج کا عجیب سا ناشتہ کھا رہی تھی – سینانگگ کے اس کے معمول کے ناشتے کی طرح کچھ بھی نہیں جو مزیدار انڈوں سے بنے چاول تھے، ڈیلیسے کو معلوم ہوا کہ وہ اسکول جانے والی ہے۔

اس کی ماں نے کہا،’ یہ آپ کے لیے گھر سے باہر نکلنا اور نئے دوستوں سے ملنا بہت اچھا ہوگا۔’

لیکن ڈیلیسے یہ خبر سن کر خوش نہیں ہوئی ۔ اسے گھر واپسی پر اپنے دوستوں کی یاد آتی تھی، اور اگرچہ وہ گھر سے زیادہ باہر نکلنا چاہتی تھی، لیکن وہ اسکول جانے سے ڈرتی تھی کیونکہ وہ کسی کو نہیں جانتی تھی۔ ڈیلیسے نے بہت سارے بچوں کو دیکھا تھا جب اس نے اور اس کی والدہ نے برمنگھم شہر کی سیر کی تھی، لیکن کسی نے بھی اس سے بات نہیں کی تھی اور وہ زیادہ انگریزی نہیں بولتی تھی جس کے بارے میں اسے معلوم تھا کہ اسے اسکول میں مشکل پیش آئے گی۔

جب صبح ہوئی، ڈیلیسے نے یہ بہانہ کرنے کی کوشش کی کہ اسے بخار ہے اور وہ اسکول کے لیے بہت بیمار ہے، لیکن اس کی ماں ہمیشہ بتا سکتی تھی کہ ڈیلیسے کب ڈرامہ کر رہی تھی اور اس لیے اسے کپڑے پہننے اور اپنا ناشتہ کرنے پر مجبور کیا گیا۔

ڈیلیسے اور اس کی ماں اسکول کے دروازے تک ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر چلتی رہیں جہاں ان کی ملاقات مسز مری نامی ایک  استانی سے ہوئی۔  استانی بہت ملنسار تھی اور اس نے ڈیلیسے کا اسکول میں خیرمقدم کیا اور اس کی والدہ کو بتایا کہ وہ تین بجے دوبارہ آکر اپنی بیٹی کو واپس لے سکتی ہیں۔

صبح ایک دھندلے انداز میں گزری جب ڈیلیسے کا تعارف مزید اساتذہ اور بہت سارے بچوں سے ہوا جنہوں نے مسکرا کر ہیلو کہا۔ ڈیلیسے کو بہت کچھ سمجھ نہیں آیا کہ اس سے کیا کہا گیا لیکن یہ سمجھایا گیا کہ دوپہر کو وہ دوسرے بچوں کے ساتھ ایک خصوصی کلاس میں جائے گی جو پوری دنیا سے انگلینڈ منتقل ہوئے تھے۔

جب ڈیلیسے بعد میں اس دوپہر کو کلاس روم میں پہنچی تو اس نے دروازہ کھٹکھٹایا اوراندر چلی گئی۔ اجنبیوں سے ملنے کے اتنے لمبے دن سے وہ بہت نروس تھی اور بہت تھک بھی گئی تھی۔ لیکن جب وہ اندر آئی تو مسز محمود نے بڑی مسکراہٹ کے ساتھ  اس کا استقبال کیا جو پاکستان سے تھیں۔

دوستانہ بنے چاول تھے نے کہا، ‘ڈیلیسے اندر آؤ۔’ آج ہم ایک کتاب پڑھ رہے ہیں جس کا نام پُس اِن بوٹس ہے اور بعد میں ہم کچھ گیمز کھیلیں گے اور پینٹنگ کریں گے۔’

نوجوان لڑکی نے دیکھا کہ کلاس روم میں موجود تمام بچے ایک دوسرے سے بہت مختلف تھے۔ ایک لڑکا زمبابوے سے اور دو لڑکیاں پولینڈ سے تھیں۔ البانیہ کی ایک بڑی لڑکی تھی اور ایک لڑکا جو ڈیلیسے سے بھی چھوٹا تھا جس نے کہا کہ وہ ایران سے ہے۔ اور اسے حیران کرنے کی بات یہ ہے کہ کلاس روم کے پچھلے حصے میں پُس اِن بوٹس کی ایک کاپی ہاتھ میں پکڑے کالیا نامی ایک نوجوان لڑکی بیٹھی تھی، جو کہ فلپائن کی تھی!

‘یہاں آؤ اور میرے پاس بیٹھو!’ کالیا نے کہا، جو ڈیلیسے کی طرح حیران تھی۔

دونوں لڑکیاں فوری دوست بن گئیں کیونکہ کالیا نے پُس اِن بوٹس کی کہانی کے بارے میں اور بتایا کہ انہوں نے مسز محمود کے ساتھ اپنی انگلش کو کیسے بہتر بنانا سیکھا جو پوری دنیا کی بہترین ٹیچر تھیں۔

اس دوپہر، ڈیلیسے نے کلاس میں ہر ایک بچے سے بات کی، اور اگرچہ وہ  ہر دفعہ یہ نہیں سمجھ پاتی تھی کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں، لیکن وہ ایک بات یقینی طور پر جانتی تھی: تمام بچے نئی زندگی شروع کرنے کے لیے انگلینڈ آئے تھے، اور اگرچہ کبھی کبھی کسی نئی جگہ پر ہونا خوفناک ہوتا تھا جہاں آپ زبان نہیں بولتے تھے، وہاں ہمیشہ کوئی نہ کوئی آس پاس ہوتا جو مدد کرتا۔ اور اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ آپ دنیا میں کہاں گئے ہیں، آپ کو ہمیشہ ایک دوست ملے گا۔ ڈیلیسے کو تب احساس ہوا کہ وہ کبھی تنہا نہیں ہو گی۔ انگلینڈ اس کا نیا گھر تھا اور وہ اس سے بہترین فائدہ اٹھانے والی تھی۔

پتھر کا سوپ

0

پتھر کا سوپ

بہت عرصہ پہلے، ایک گاؤں میں جو ندی سے زیادہ دور نہیں تھا، ایک مہربان سپاہی دھول بھری گلی سے نیچے جا رہا تھا۔ اس کی حرکت سست تھی کیونکہ وہ  سارے دن سے چل رہا تھا۔ اسے ایک اچھا، گرم کھانا کھانے کے علاوہ اور کچھ پسند نہیں تھا۔ جب وہ سڑک کے کنارے ایک عجیب و غریب گھر پر پہنچا تو اس نے اپنے آپ میں سوچا، ‘یہاں رہنے والے کے پاس میرے جیسے بھوکے مسافر کے ساتھ

بانٹنے کے لیے کچھ اضافی کھانا ضرور ہوگا۔ میرا خیال ہے میں جا کر پوچھوں گا۔’

اور یوں سپاہی گوبھیوں، آلوؤں، پیازوں اور گاجروں سے بھرے باغ سے گزرتے ہوئے لکڑی کے دروازے کی طرف بڑھ گیا۔ گھر کے سامنے پہنچ کر جیسے ہی دستک دینے کے لئے اس نے ہاتھ بڑھایا  تب دروازہ اچانک کھل گیاا۔ دوسری طرف ایک بوڑھا آدمی کھڑا تھا۔ اس کے ہاتھ کولہوں پر تھے اور اس نے تیوری چڑھائی ہوئی تھی۔

‘تم کیا چاہتے ہو؟’ بوڑھے نے بدتمیزی سے کہا۔ پھر بھی سپاہی اسے دیکھ کر مسکرایا۔

‘ہیلو، میں ایک گاؤں کا سپاہی ہوں جو یہاں سے زیادہ دور نہیں ہے۔ میں آپ کے پاس یہ پوچھنے آیا ہوں کہ کیا آپ کے پاس کوئی کھانا ہے جو آپ دے سکتے ہیں۔’

بوڑھے نے سپاہی کو اوپر نیچے دیکھا اور بہت دو ٹوک جواب دیا۔ ‘نہیں. اب چلے جاؤ۔’

سپاہی اس سے باز نہ آیا – اس نے ایک بار پھر مسکرا کر سر ہلایا۔ ‘میں دیکھ رہا ہوں، میں صرف اس لیے پوچھ رہا ہوں کہ میرے پاس اپنے پتھر کے سوپ کے لیے کچھ اور اجزاء ہوں گے، لیکن میرا اندازہ ہے کہ مجھے یہ سادہ ہی کھانا پڑے گا۔ اگرچہ اتنا ہی مزیدار!’

بوڑھے نے بھنویں اچکا لیں۔ ‘پتھر کا سوپ؟’ اس نے پوچھا۔

‘جی جناب،’ سپاہی نے جواب دیا، ‘اب اگر آپ مجھے جانے کی اجازت دیں گے…’

سپاہی راستے کے بیچ میں چلا گیا اور اپنے سامان میں سے ایک لوہے کی دیگچی نکالی۔ ایک بار جب اس نے پانی سے بھر لیا تو اس کے نیچے آگ لگانے لگا۔ پھر بڑے اہتمام کے ساتھ اس نے ریشم کے تھیلے سے ایک عام سا نظر آنے والا پتھر نکالا اور آہستہ سے اسے پانی میں گرادیا۔

بوڑھا حیرانی سے اپنی کھڑکی سے یہ سب دیکھ رہا تھا۔

‘پتھر کا سوپ؟’ اس نے خود سے پوچھا۔ ‘یقیناً ایسی کوئی چیز نہیں ہے!’

اور تھوڑی دیر بعد سپاہی کو ایک چھوٹی سی چھڑی سے پانی ہلاتے دیکھ کر، بوڑھا آدمی باہر نکلا اور سپاہی سے پوچھا، ‘تم کیا کر رہے ہو؟’

سپاہی نے اپنے برتن سے نکلنے والی بھاپ کی سونگھ لی اور اپنے ہونٹوں کو چاٹتے ہوئے کہا، ‘آہ، مجھے پتھر کے سوپ سے زیادہ کوئی چیز پسند نہیں ہے۔’ اس نے پھر بوڑھے کی طرف دیکھا اور کہا، ‘یقیناً۔ تھوڑے سے نمک اور کالی مرچ کے ساتھ پتھر کے سوپ سے کم ہی چیزیں بہتر ہیں ۔’

ہچکچاتے ہوئے، بوڑھا اندر گیا اور نمک اور کالی مرچ لے کر آہستہ آہستہ سپاہی کے حوالے کر دیا۔

‘بالکل!’ سپاہی نے پکارا جب اس نے انہیں برتن میں چھڑک دیا۔ اس نے ایک بار پھر بوڑھے آدمی کی طرف دیکھنے سے پہلے اسے ہلایا، ‘لیکن آپ جانتے ہیں، میں نے ایک بار گوبھی کے ساتھ پتھر کے اس حیرت انگیز سوپ کا مزہ چکھا تھا۔’

اس کے بعد بوڑھا آدمی اپنے گوبھی کے پودوں کے پاس پہنچا اور سب سے پکی ہوئی گوبھی اٹھا کر سپاہی کو دے دی۔

اوہ، کتنی  شاندار ہے!’ سپاہی نے گوبھی کو کاٹ کر برتن میں ڈالتے ہوئے کہا۔

اس نے برتن کی ایک گہری سونگھ لی اور بوڑھے سے کہا، ‘تم جانتے ہو، یہ چند گاجروں کے ساتھ بادشاہ کے لیے سوپ ہو گا۔’

بوڑھے نے سوچتے ہوئے کہا، ‘مجھے لگتا ہے کہ میں کچھ گاجر لا سکتا ہوں ،’ اور وہ گاجروں کے پاس گیا اور مٹھی بھر توڑ لایا ۔

جب اسے گاجریں پیش کی گئیں تو سپاہی بہت خوش ہوا۔ اس نے انہیں کاٹ کر ایک بار پھر برتن کو ہلایا۔

اور یوں چلتا رہا۔ بوڑھا آدمی برتن کی خوشبو سے خوش ہونے لگا جب وہ پیاز، آلو، گائے کا گوشت وغیرہ لے کر آیا۔ سپاہی نے خود بھی اپنے تھیلے میں مشروم اور جو جیسی چیزیں شامل کیں، یہاں تک کہ اس نے اعلان کیا کہ سوپ تیار ہے۔

بوڑھا آدمی سپاہی کی طرف دیکھ کر مسکرایا جب اس نے آدھا سوپ اسے پیش کیا۔

‘آپ اندر کیوں نہیں آتے؟ میرے پاس آج صبح بیکری سے سیدھی لائی گئی تازہ ڈبل روٹی ہے جو پتھر کے سوپ کے ساتھ مزیدار ہو گی۔’ اس نے شفقت سے کہا۔

اور اس طرح بوڑھے آدمی اور سپاہی نے مل کر ایک شاندار کھانا کھایا۔ سپاہی نے اپنے تھیلے سے دودھ کا ایک ڈبہ نکالا اور وہ بھی  شیئر کیا۔ بوڑھے آدمی نے سپاہی سے اتفاق کیا کہ سوپ اس سے بہتر تھا جو اس نے پہلے کبھی چکھا تھا۔

یہ اس وقت تک نہیں ہوا تھا جب تک کہ سپاہی نے اسے ریشم کا تھیلا نہیں دیا تھا جس میں پتھر تھا بوڑھے کو حقیقت معلوم ہو گئی۔ ۔ یہ وہ پتھر کبھی نہیں تھا جس نے مزیدار سوپ بنایا ہو۔ بلکہ، مل کر کام کرنے اور فراخدلی سے، وہ اور سپاہی دونوں ایک ایسا لذیذ کھانا بنانے میں کامیاب ہو گئے تھے جسے وہ اپنے درمیان  شیئر کر سکتے تھے۔

چیونٹی اور ہاتھی

0

چیونٹی اور ہاتھی

مہابس دو ٹیموں کے درمیان کھیلا جانے والا کھیل ہے۔ ایک ٹیم کمبل کے نیچے اپنا ہاتھوں کو رکھتی ہے ٹیم کے ساتھیوں کی ہتھیلیوں میں ایک انگوٹھی کو چھپاتی ہے۔ پھر وہ دوسری ٹیم کو اپنی بند مٹھی دکھاتے ہیں۔ دوسری ٹیم کو اندازہ لگانا ہوتا ہے کہ انگوٹھی کس ہاتھ میں چھپی ہوئی ہے۔

ایک چیونٹی اور ایک ہاتھی بہت اچھے دوست تھے اور جب بھی موقع ملتا دونوں ساتھ مل کر کھیلتے تھے۔ مسئلہ یہ تھا کہ، ہاتھی کے والدبہت سخت قسم کے تھے اور انہیں ہوم ورک کرنے یا اس کی والدہ کو چھوٹے چھوٹے کام میں مدد کی ضرورت ہونے کے وقت اپنے بیٹے کا کھیلنا پسند نہیں تھا۔

۔ اور انہیں پسند نہیں تھا کہ ان کا بیٹا اپنے دوست چیونٹی کے ساتھ کھیلے جب کہ اسے دوسرے ہاتھیوں کے ساتھ کھیلنے پر ناز ہونا چاہئے۔

چھوٹا ہاتھی اپنے والد سے کافی ڈرا ہوا تھا اور ان کا غصہ ہونا اسے بالکل بھی پسند نہیں تھا۔ لیکن چیونٹی بہت بہادر چیونٹی تھی اور تندمزاج بزرگ والد سے خوفزدہ نہیں تھی۔

ایک دن، دونوں دوست مہابس کا کھیل رہے تھے کہ تبھی انہیں غصہ میں بھرے ہوئے والد کے آنے کی آہٹ سنائی دی۔ زمین دھمک سے ہل رہی تھی اور وہ درختوں کو توڑتا پھوڑتا آرہا تھا۔

ارے نہیں، یہ میرے والد ہیں!’ نوجوان ہاتھی چلایا، اس کے چہرے پر خوف چھا گيا۔ ‘میں کیا کرسکتا ہوں؟

چھوٹی چیوٹی نے اپنی چھاتی پھلائی اور اپنے پورے قد سے کھڑی ہوگئی۔ ‘فکر نہ کرو، میرے دوست، تم میرے

پیچھے چھپ سکتے ہو اور تمہارے والد تمہیں تلاش نہیں کرسکیں گے!’