Home Blog Page 3

نمازی اور شیطان کا واقعہ

0

نمازی اور شیطان کا واقعہ

ایک شخص اندھیری رات میں فجر کی نماز پڑھنے کے لیے گھر سے نکلا۔ اندھیرے کی وجہ سے اسے ٹھوکر لگ گئی اور وہ منہ کے بل کیچڑ میں گر گیا۔ کیچڑ سے اٹھ کر وہ گھر واپس آیا اور لباس تبدیل کر کے دوبارہ مسجد کی طرف چل دیا۔

ابھی چند قدم ہی چلا تھا کہ دوبارہ اسے ٹھوکر لگی اور وہ دوبارہ کیچڑ میں گر گیا۔ کیچڑ سے اٹھ کر وہ پھر دوبارہ اپنے گھر گیا۔ لباس بدلا اور مسجد جانے کے لیے دوبارہ گھر سے نکلا۔

جیسے ہی وہ اپنے گھر سے باہر نکلا۔ تو اس کے دروازے پر اسے ایک شخص ملا۔ جو اپنے ہاتھ میں روشن چراغ تھامے ہوئے تھا۔ چراغ والا شخص چپ چاپ نمازی کے آگے مسجد کی طرف چل دیا۔ اس مرتبہ چراغ کی روشنی میں نمازی کو مسجد پہنچنے میں کسی دشواری کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔

وہ خیریت سے مسجد پہنچ گیا۔ مسجد کے دروازے پر پہنچ کر چراغ والا شخص رک گیا۔ نمازی اسے چھوڑ کر مسجد داخل ہوگیا اور نماز ادا کرنے لگا۔ نماز سے فارغ ہو کر وہ مسجد کے باہر آیا۔ تو وہ چراغ والا شخص اس کا انتظار کر رہا تھا۔

تاکہ اس نمازی کو چراغ کی روشنی میں گھر چھوڑ آئے۔ جب نمازی گھر پہنچ گیا۔ تو نمازی نے اجنبی شخص سے پوچھا: آپ کون ہے؟ اجنبی بولا سچ بتاؤں تو میں ابلیس ہوں۔ نمازی کی تو حیرت کی انتہا نہ رہی۔

اس اجنبی کی یہ بات سن کر نمازی سوچنے لگا۔ ابلیس شیطان کیسے مجھے مسجد تک چھوڑ سکتا ہے؟ اس کا کام تو لوگوں کو بہکانا ہے۔ تو اس شخص نے بڑی حیرت کے ساتھ ابلیس سے پوچھا: تجھے تو میری نماز رہ جانے پہ خوش ہونا چاہیے تھا۔

مگر تم تو چراغ کی روشنی میں مجھے مسجد تک چھوڑنے آئے۔ ابلیس نے جواب دیا کہ جب تمہیں پہلی ٹھوکر لگی۔ اور تم لباس تبدیل کرکہ مسجد کی طرف پلٹے۔ تو اللہ تعالی نے تیرے سارے گناہ معاف فرما دیے۔

جب تمہیں دوسری ٹھوکر لگی تو اللہ تعالی نے تمہارے پورے خاندان کو بخش دیا۔ جس پر مجھے فکر ہوئی کہ اگر اب تمہیں ٹھوکر لگی۔ تو اللہ تعالیٰ کہیں تمھارے اس عمل کی بدولت تمارے سارے گاؤں کی مغفرت نہ فرما دے۔

اس لیے میں چراغ لے کر آیا ہوں کہ تم بغیر گرے مسجد تک پہنچ جاؤ۔ اس شخص نے جیسے ہی یہ بات سنی۔ تو اس نے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اپنا سر جھکا کر اللہ کا شکر ادا کیا۔ تو دوستو یہ ہے ہمارے رب کی شان۔ سبحان اللہ

بسم اللہ کی برکت کا واقعہ

0

بسم اللہ کی برکت کا واقعہ

کہا جاتا ہے کہ کسی علاقے میں قحط سالی پیدا ہوگئی۔ اس قحط سالی کی لپیٹ میں نہ صرف انسان بلکہ چرند و پرند سب اس کا شکار ہوگئے۔ مویشی مالکان بے حد پریشان تھے۔اس دوران ایک مسجد کے مولوی نے جمعہ کے خطبے میں نہایت یقین کے ساتھ یہ بات بتائی کہ اللہ کا نام لے کر یعنی بسم اللہ پڑھ کر دریا کو حکم دیا جائے تو وہ بھی نافرمانی نہیں کرتا۔

خطبہ سننے والوں میں ایک چرواہا بھی مجود تھا۔ مولوی کی یہ بات اس کے دل میں اتر گئی۔ اور اس بات پر اس کا یقین کامل ہوگیا۔ اس نے واپس آ کر اپنی بکریاں کھولیں اور سیدھا دریا پر چلا گیا۔ اونچی آواز سے بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھا اور دریا کو کہا وہ اپنی بکریاں چروانے کے لیے دوسرے پار جانا چاہتا ہے۔ اور اسے کہا کہ مجھے اپنے اوپر سے گزرنے دے۔

یہ کہہ کر اس نے اپنی بکریوں کو لیا اور دریا پر چلتا ہوا دریا پار کر گیا۔ دریا کے دوسری طرف کاعلاقہ گھاس سے بھرا پڑا ہوا۔ درختوں کے پتے بھی سلامت تھے۔ کیونکہ کسی کو یہاں تک آنے کی رسائی نہیں تھی۔ اس نے خوب اچھی طرح اپنی بکریوں کو سیر کروایا اور واپس لوٹ آیا۔

پھر یہ اس کا معمول بن گیا کہ وہ بکریاں پار چھوڑ کر واپس آ جاتا اور شام کو جا کر بکریاں واپس لے آتا۔ اس کی بکریوں کا وزن دگنا چوگنا ہو گیا۔ لوگ چونک گئے اور اس سے پوچھا کہ وہ اپنی بکریوں کو کیا کھلاتا ہے۔ وہ سیدھا سادھا اور صاف دل نوجوان تھا۔ اس نے صاف صاف بات بتا دی کہ جناب میں تو بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھ کر دریا پر چل کر اپنی بکریاں دوسری طرف چروانے لے جاتا ہوں۔

یہ بات سب نے سنی مگر کسی نے اس چرواہے کی بات پر یقین نہیں کیا۔ کیونکہ یہ ناقابل یقین بات تھی۔ مگر بات ہوتے ہوتے مولوی صاحب کے پاس پہنچ گئی۔ مولوی صاحب نے اس چرواہے کو بلایا اور سارا ماجرا پوچھا۔

اس چرواہے نے مولوی صاحب کو ہی حوالہ بنا لیا کہ مولوی صاحب میں تو آپ کا شکریہ ادا کرنے والا تھا۔ آپ نے جمعہ کے خطبے میں جو نسخہ بتایا تھا کہ بسم اللہ کہہ کر دریا کو بھی حکم دو تو وہ بھی انکار نہیں کرتا۔ تو میں تو بس آپ کے نسخے پر ہی عمل کر رہا ہوں۔

مولوی صاحب حیرت سے اس کے چہرے کو دیکھتے رہے۔ مولوی صاحب نے کہا بھائی صاحب! ایسی باتیں تو ہم ہر جمعہ میں کرتے ہیں۔ فقط ان کا مقصد لوگوں کا ایمان بنانا ہوتا ہے۔ مگر بکریوں والا ڈٹا رہا کہ میں تو بس بسم اللہ کہہ کر پانی پر چلتا ہوں اور بکریوں سمیت پانی پار چلا جاتا ہوں۔

آخر کار مولوی صاحب نے صبح خود یہ تجربہ کرنے کی ٹھانی۔ جسے دیکھنے چرواہے سمیت پورا علاقہ بھی آگیا۔ مجمع زیادہ تھا۔ مولوی صاحب نے ایک دو بار سوچا کہ انکار کر دوں کہ کہیں ڈوب نہ جاؤں۔ مگر وہ جو مولوی صاحب کو کندھے پر اٹھا کر لائے تھے۔ اب بھی جوش و خروش سے اللہ اکبر کے نعرے لگا رہے تھے۔ اور مولوی صاحب کے حق میں تعریفیں کر رہے تھے۔

آخر کار مولوی صاحب نے اپنے ڈر کو دور کرنے کے لیے ایک رسہ منگوایا۔ پہلے اسے ایک درخت کے ساتھ باندھا پھر اپنی کمر کے ساتھ باندھا پھر ڈرتے ڈرتے ڈھیلا ڈھالا بسم اللہ پڑھا اور دریا پر چلنا شروع ہو گئے۔

مگر پہلا پاؤں ہی رکھا تھا کہ پانی میں گر گئے۔ مولوی صاحب ڈوبکیاں کھانے لگے اور پانی کے بہاؤ میں بہنا شروع ہو گئے۔ لوگوں نے کھینچ کھینچ کر باہر نکالا۔ مولوی صاحب کی اس حرکت نے چرواہے کو پریشان کر دیا کہ مولوی صاحب کی بسم اللہ کو یہ کیا ہو گیا ہے؟ کیونکہ اس کا یہ روز کا معمول تھا۔

اس کے اپنے یقین میں کوئی فرق نہ آیا۔ اس نے بسم اللہ کہہ کر بکریوں کو پانی کی طرف اشارہ کیا۔ اور خود ان کے پیچھے چلتا ہوا پار چھوڑ کر واپس بھی آگیا۔ لوگ اسے ولی اللہ سمجھ رہے تھے۔ اور اس کے حق میں نعرے لگا رہے تھے۔ مگر وہ سب سے بے نیاز, سیدھا سادہ انسان تھا۔ وہ مولوی صاحب کے پاس پہنچا اور کہا۔

مولوی صاحب میں آپکی بسم اللہ کی تعریف سے کافی پریشان تھا۔ مگر پانی پر چلتے ہوئے مجھے آپ کی بسم اللہ کی بیماری کا پتہ چل گیا۔ اس چرواہے نے درخت سے بندھی رسی کی طرف اشارہ کیا اور کہا مولوی صاحب یہ ہے۔ آپ کی بسم اللہ کی بیماری آپ کی بسم اللہ کی برکت کو یہ رسہ کھا گیا۔

آپ کو اللہ اور بسم اللہ سے زیادہ اس رسے پر بھروسہ تھا۔ لہذا اللہ نے بھی آپ کو رسی کے حوالے کر دیا۔ پھر کہنے لگا مولوی صاحب آپ بھی کمال کرتے ہو۔ میں نے آپ کے منہ سے سنا اور یقین کر لیا اور میرے اللہ نے میرے یقین کی لاج رکھ لی۔

مگر آپ نے اللہ کا کلام سنا مگر یقین نہیں کیا۔ لہذا آپ کو اللہ نے رسوا کر دیا۔ محترم عزیز دوستو یہی کچھ ہمارا حال ہے۔ ہماری نمازوں اور دعاؤں کا حال بھی یقین سے خالی ہے

اکیلے نہیں

0

اکیلے نہیں

جب ڈیلیسے صرف آٹھ سال کی تھی تو اس کی ماں نے اسے بتایا کہ وہ اپنا گھر چھوڑ کر انگلینڈ چلے جائیں گے۔

ڈیلیسے کی والدہ نے وضاحت کرتے ہوئے کہا، ‘آپ کے والد کو کام تلاش کرنا چاہیے تاکہ ہم آپ کے دادا دادی اور آپ کی آنٹی کی کفالت کے لیے رقم بھیج سکیں۔’

نوجوان لڑکی منیلا میں اپنا گھر چھوڑنا نہیں چاہتی تھی جو کہ فلپائن کا ایک بہت بڑا شہر ہے اور جب اس کی والدہ نے اسے یہ خبر سنائی تو اسے بہت دکھ ہوا۔

‘لیکن میرے تمام دوستوں کا کیا ہوگا؟’ ڈیلیسے نے پوچھا۔ ‘میں انگلینڈ میں کسی کو نہیں  جانتی اور میں اکیلی ہوں گی۔’

اس کی والدہ نے ڈیلیسے کو یقین دلایا کہ یہ ان تینوں کے لیے ایک دلچسپ مہم جوئی والی بات ہونے والی ہے اور جب  وہ انگلینڈ میں اسکول شروع  کرے گی تو ڈیلیسے بہت سے نئے دوستوں سے ملے گی۔ ڈیلیسے کو اپنی ماں کے مہربان الفاظ پر یقین نہیں آیا۔ اسے اپنا گھر پسند تھا اور وہ اسکول جانا پسند کرتی تھی جہاں وہ تمام اساتذہ کو جانتی تھی اور اس کے بہت سے دوست پہلے سے ہی تھے۔

‘مجھے سمجھ نہیں آ رہی کہ ہمیں انگلینڈ کیوں جانا پڑے گا،’ ڈیلیسے نے ایک رات پہلے سوچاجب خاندان نے جانا تھا۔ ‘میں انگلینڈ کے بارے میں کچھ نہیں جانتی۔ مجھے انگریزی بھی زیادہ نہیں آتی اور میں بالکل اکیلی ہو جاؤں گی!’

اس آخری احساس نے نوجوان لڑکی کو مزید اداس کر دیا اور اس نے دل سے خواہش کی کہ وہ منیلا میں اپنی آنٹی یا اپنے دادا دادی کے ساتھ رہ سکے۔

سفر بہت لمبا تھا اور ڈیلیسے بڑے ہوائی جہاز اور ہوائی اڈے پر بھاگنے والے تمام لوگوں سے مغلوب تھی۔

جب خاندان آخر کار انگلینڈ پہنچا تو سب کچھ عجیب سا لگ رہا تھا اور اسے یقین تھا کہ ہر کوئی اس کی طرف دیکھ رہا ہے۔ برمنگھم کے شہر کی عمارتیں بڑی اور سرمئی تھیں اور ڈیلیسے کو گھرجیسا بالکل بھی محسوس نہیں ہوتا تھا۔

پہلا مہینہ اچانک گزر گیا جب خاندان کو رہنے کے لیے ایک گھر مل گیا اور ڈیلیسے کے والد کام کی تلاش میں باہر گئے تاکہ وہ فلپائن میں باقی خاندان کو پیسے واپس بھیج سکیں۔

نوجوان لڑکی بہت اکیلی تھی، اور اگرچہ اس کی ماں اس کے ساتھ کھیل کھیلتی تھی اور اسے ادھر ادھر گھمانے کے لیے باہر لے جاتی تھی، ڈیلیسے اپنے دوستوں کو بہت یاد کرتی تھی اور یہ محسوس کرنے میں  اپنے آپ کو نہیں روک سکتی تھی کہ وہ نئے شہر میں بالکل اکیلی ہے۔ رات کو وہ اپنے بستر پر روتی رہتی تھی اور وہ اکثر خواب دیکھتی تھی کہ اگلے دن اس کے والد اسے جگائیں گے اور بتائیں گے کہ وہ گھر لوٹنے والے ہیں۔ لیکن ہر صبح ڈیلیسے بیدار ہوئی اور اسے احساس  ہوتا کہ شاید وہ پھر کبھی گھر واپس نہیں جائے گی۔

ایک صبح، جب وہ دودھ کے ساتھ اناج کا عجیب سا ناشتہ کھا رہی تھی – سینانگگ کے اس کے معمول کے ناشتے کی طرح کچھ بھی نہیں جو مزیدار انڈوں سے بنے چاول تھے، ڈیلیسے کو معلوم ہوا کہ وہ اسکول جانے والی ہے۔

اس کی ماں نے کہا،’ یہ آپ کے لیے گھر سے باہر نکلنا اور نئے دوستوں سے ملنا بہت اچھا ہوگا۔’

لیکن ڈیلیسے یہ خبر سن کر خوش نہیں ہوئی ۔ اسے گھر واپسی پر اپنے دوستوں کی یاد آتی تھی، اور اگرچہ وہ گھر سے زیادہ باہر نکلنا چاہتی تھی، لیکن وہ اسکول جانے سے ڈرتی تھی کیونکہ وہ کسی کو نہیں جانتی تھی۔ ڈیلیسے نے بہت سارے بچوں کو دیکھا تھا جب اس نے اور اس کی والدہ نے برمنگھم شہر کی سیر کی تھی، لیکن کسی نے بھی اس سے بات نہیں کی تھی اور وہ زیادہ انگریزی نہیں بولتی تھی جس کے بارے میں اسے معلوم تھا کہ اسے اسکول میں مشکل پیش آئے گی۔

جب صبح ہوئی، ڈیلیسے نے یہ بہانہ کرنے کی کوشش کی کہ اسے بخار ہے اور وہ اسکول کے لیے بہت بیمار ہے، لیکن اس کی ماں ہمیشہ بتا سکتی تھی کہ ڈیلیسے کب ڈرامہ کر رہی تھی اور اس لیے اسے کپڑے پہننے اور اپنا ناشتہ کرنے پر مجبور کیا گیا۔

ڈیلیسے اور اس کی ماں اسکول کے دروازے تک ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر چلتی رہیں جہاں ان کی ملاقات مسز مری نامی ایک  استانی سے ہوئی۔  استانی بہت ملنسار تھی اور اس نے ڈیلیسے کا اسکول میں خیرمقدم کیا اور اس کی والدہ کو بتایا کہ وہ تین بجے دوبارہ آکر اپنی بیٹی کو واپس لے سکتی ہیں۔

صبح ایک دھندلے انداز میں گزری جب ڈیلیسے کا تعارف مزید اساتذہ اور بہت سارے بچوں سے ہوا جنہوں نے مسکرا کر ہیلو کہا۔ ڈیلیسے کو بہت کچھ سمجھ نہیں آیا کہ اس سے کیا کہا گیا لیکن یہ سمجھایا گیا کہ دوپہر کو وہ دوسرے بچوں کے ساتھ ایک خصوصی کلاس میں جائے گی جو پوری دنیا سے انگلینڈ منتقل ہوئے تھے۔

جب ڈیلیسے بعد میں اس دوپہر کو کلاس روم میں پہنچی تو اس نے دروازہ کھٹکھٹایا اوراندر چلی گئی۔ اجنبیوں سے ملنے کے اتنے لمبے دن سے وہ بہت نروس تھی اور بہت تھک بھی گئی تھی۔ لیکن جب وہ اندر آئی تو مسز محمود نے بڑی مسکراہٹ کے ساتھ  اس کا استقبال کیا جو پاکستان سے تھیں۔

دوستانہ بنے چاول تھے نے کہا، ‘ڈیلیسے اندر آؤ۔’ آج ہم ایک کتاب پڑھ رہے ہیں جس کا نام پُس اِن بوٹس ہے اور بعد میں ہم کچھ گیمز کھیلیں گے اور پینٹنگ کریں گے۔’

نوجوان لڑکی نے دیکھا کہ کلاس روم میں موجود تمام بچے ایک دوسرے سے بہت مختلف تھے۔ ایک لڑکا زمبابوے سے اور دو لڑکیاں پولینڈ سے تھیں۔ البانیہ کی ایک بڑی لڑکی تھی اور ایک لڑکا جو ڈیلیسے سے بھی چھوٹا تھا جس نے کہا کہ وہ ایران سے ہے۔ اور اسے حیران کرنے کی بات یہ ہے کہ کلاس روم کے پچھلے حصے میں پُس اِن بوٹس کی ایک کاپی ہاتھ میں پکڑے کالیا نامی ایک نوجوان لڑکی بیٹھی تھی، جو کہ فلپائن کی تھی!

‘یہاں آؤ اور میرے پاس بیٹھو!’ کالیا نے کہا، جو ڈیلیسے کی طرح حیران تھی۔

دونوں لڑکیاں فوری دوست بن گئیں کیونکہ کالیا نے پُس اِن بوٹس کی کہانی کے بارے میں اور بتایا کہ انہوں نے مسز محمود کے ساتھ اپنی انگلش کو کیسے بہتر بنانا سیکھا جو پوری دنیا کی بہترین ٹیچر تھیں۔

اس دوپہر، ڈیلیسے نے کلاس میں ہر ایک بچے سے بات کی، اور اگرچہ وہ  ہر دفعہ یہ نہیں سمجھ پاتی تھی کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں، لیکن وہ ایک بات یقینی طور پر جانتی تھی: تمام بچے نئی زندگی شروع کرنے کے لیے انگلینڈ آئے تھے، اور اگرچہ کبھی کبھی کسی نئی جگہ پر ہونا خوفناک ہوتا تھا جہاں آپ زبان نہیں بولتے تھے، وہاں ہمیشہ کوئی نہ کوئی آس پاس ہوتا جو مدد کرتا۔ اور اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ آپ دنیا میں کہاں گئے ہیں، آپ کو ہمیشہ ایک دوست ملے گا۔ ڈیلیسے کو تب احساس ہوا کہ وہ کبھی تنہا نہیں ہو گی۔ انگلینڈ اس کا نیا گھر تھا اور وہ اس سے بہترین فائدہ اٹھانے والی تھی۔

پتھر کا سوپ

0

پتھر کا سوپ

بہت عرصہ پہلے، ایک گاؤں میں جو ندی سے زیادہ دور نہیں تھا، ایک مہربان سپاہی دھول بھری گلی سے نیچے جا رہا تھا۔ اس کی حرکت سست تھی کیونکہ وہ  سارے دن سے چل رہا تھا۔ اسے ایک اچھا، گرم کھانا کھانے کے علاوہ اور کچھ پسند نہیں تھا۔ جب وہ سڑک کے کنارے ایک عجیب و غریب گھر پر پہنچا تو اس نے اپنے آپ میں سوچا، ‘یہاں رہنے والے کے پاس میرے جیسے بھوکے مسافر کے ساتھ

بانٹنے کے لیے کچھ اضافی کھانا ضرور ہوگا۔ میرا خیال ہے میں جا کر پوچھوں گا۔’

اور یوں سپاہی گوبھیوں، آلوؤں، پیازوں اور گاجروں سے بھرے باغ سے گزرتے ہوئے لکڑی کے دروازے کی طرف بڑھ گیا۔ گھر کے سامنے پہنچ کر جیسے ہی دستک دینے کے لئے اس نے ہاتھ بڑھایا  تب دروازہ اچانک کھل گیاا۔ دوسری طرف ایک بوڑھا آدمی کھڑا تھا۔ اس کے ہاتھ کولہوں پر تھے اور اس نے تیوری چڑھائی ہوئی تھی۔

‘تم کیا چاہتے ہو؟’ بوڑھے نے بدتمیزی سے کہا۔ پھر بھی سپاہی اسے دیکھ کر مسکرایا۔

‘ہیلو، میں ایک گاؤں کا سپاہی ہوں جو یہاں سے زیادہ دور نہیں ہے۔ میں آپ کے پاس یہ پوچھنے آیا ہوں کہ کیا آپ کے پاس کوئی کھانا ہے جو آپ دے سکتے ہیں۔’

بوڑھے نے سپاہی کو اوپر نیچے دیکھا اور بہت دو ٹوک جواب دیا۔ ‘نہیں. اب چلے جاؤ۔’

سپاہی اس سے باز نہ آیا – اس نے ایک بار پھر مسکرا کر سر ہلایا۔ ‘میں دیکھ رہا ہوں، میں صرف اس لیے پوچھ رہا ہوں کہ میرے پاس اپنے پتھر کے سوپ کے لیے کچھ اور اجزاء ہوں گے، لیکن میرا اندازہ ہے کہ مجھے یہ سادہ ہی کھانا پڑے گا۔ اگرچہ اتنا ہی مزیدار!’

بوڑھے نے بھنویں اچکا لیں۔ ‘پتھر کا سوپ؟’ اس نے پوچھا۔

‘جی جناب،’ سپاہی نے جواب دیا، ‘اب اگر آپ مجھے جانے کی اجازت دیں گے…’

سپاہی راستے کے بیچ میں چلا گیا اور اپنے سامان میں سے ایک لوہے کی دیگچی نکالی۔ ایک بار جب اس نے پانی سے بھر لیا تو اس کے نیچے آگ لگانے لگا۔ پھر بڑے اہتمام کے ساتھ اس نے ریشم کے تھیلے سے ایک عام سا نظر آنے والا پتھر نکالا اور آہستہ سے اسے پانی میں گرادیا۔

بوڑھا حیرانی سے اپنی کھڑکی سے یہ سب دیکھ رہا تھا۔

‘پتھر کا سوپ؟’ اس نے خود سے پوچھا۔ ‘یقیناً ایسی کوئی چیز نہیں ہے!’

اور تھوڑی دیر بعد سپاہی کو ایک چھوٹی سی چھڑی سے پانی ہلاتے دیکھ کر، بوڑھا آدمی باہر نکلا اور سپاہی سے پوچھا، ‘تم کیا کر رہے ہو؟’

سپاہی نے اپنے برتن سے نکلنے والی بھاپ کی سونگھ لی اور اپنے ہونٹوں کو چاٹتے ہوئے کہا، ‘آہ، مجھے پتھر کے سوپ سے زیادہ کوئی چیز پسند نہیں ہے۔’ اس نے پھر بوڑھے کی طرف دیکھا اور کہا، ‘یقیناً۔ تھوڑے سے نمک اور کالی مرچ کے ساتھ پتھر کے سوپ سے کم ہی چیزیں بہتر ہیں ۔’

ہچکچاتے ہوئے، بوڑھا اندر گیا اور نمک اور کالی مرچ لے کر آہستہ آہستہ سپاہی کے حوالے کر دیا۔

‘بالکل!’ سپاہی نے پکارا جب اس نے انہیں برتن میں چھڑک دیا۔ اس نے ایک بار پھر بوڑھے آدمی کی طرف دیکھنے سے پہلے اسے ہلایا، ‘لیکن آپ جانتے ہیں، میں نے ایک بار گوبھی کے ساتھ پتھر کے اس حیرت انگیز سوپ کا مزہ چکھا تھا۔’

اس کے بعد بوڑھا آدمی اپنے گوبھی کے پودوں کے پاس پہنچا اور سب سے پکی ہوئی گوبھی اٹھا کر سپاہی کو دے دی۔

اوہ، کتنی  شاندار ہے!’ سپاہی نے گوبھی کو کاٹ کر برتن میں ڈالتے ہوئے کہا۔

اس نے برتن کی ایک گہری سونگھ لی اور بوڑھے سے کہا، ‘تم جانتے ہو، یہ چند گاجروں کے ساتھ بادشاہ کے لیے سوپ ہو گا۔’

بوڑھے نے سوچتے ہوئے کہا، ‘مجھے لگتا ہے کہ میں کچھ گاجر لا سکتا ہوں ،’ اور وہ گاجروں کے پاس گیا اور مٹھی بھر توڑ لایا ۔

جب اسے گاجریں پیش کی گئیں تو سپاہی بہت خوش ہوا۔ اس نے انہیں کاٹ کر ایک بار پھر برتن کو ہلایا۔

اور یوں چلتا رہا۔ بوڑھا آدمی برتن کی خوشبو سے خوش ہونے لگا جب وہ پیاز، آلو، گائے کا گوشت وغیرہ لے کر آیا۔ سپاہی نے خود بھی اپنے تھیلے میں مشروم اور جو جیسی چیزیں شامل کیں، یہاں تک کہ اس نے اعلان کیا کہ سوپ تیار ہے۔

بوڑھا آدمی سپاہی کی طرف دیکھ کر مسکرایا جب اس نے آدھا سوپ اسے پیش کیا۔

‘آپ اندر کیوں نہیں آتے؟ میرے پاس آج صبح بیکری سے سیدھی لائی گئی تازہ ڈبل روٹی ہے جو پتھر کے سوپ کے ساتھ مزیدار ہو گی۔’ اس نے شفقت سے کہا۔

اور اس طرح بوڑھے آدمی اور سپاہی نے مل کر ایک شاندار کھانا کھایا۔ سپاہی نے اپنے تھیلے سے دودھ کا ایک ڈبہ نکالا اور وہ بھی  شیئر کیا۔ بوڑھے آدمی نے سپاہی سے اتفاق کیا کہ سوپ اس سے بہتر تھا جو اس نے پہلے کبھی چکھا تھا۔

یہ اس وقت تک نہیں ہوا تھا جب تک کہ سپاہی نے اسے ریشم کا تھیلا نہیں دیا تھا جس میں پتھر تھا بوڑھے کو حقیقت معلوم ہو گئی۔ ۔ یہ وہ پتھر کبھی نہیں تھا جس نے مزیدار سوپ بنایا ہو۔ بلکہ، مل کر کام کرنے اور فراخدلی سے، وہ اور سپاہی دونوں ایک ایسا لذیذ کھانا بنانے میں کامیاب ہو گئے تھے جسے وہ اپنے درمیان  شیئر کر سکتے تھے۔

چیونٹی اور ہاتھی

0

چیونٹی اور ہاتھی

مہابس دو ٹیموں کے درمیان کھیلا جانے والا کھیل ہے۔ ایک ٹیم کمبل کے نیچے اپنا ہاتھوں کو رکھتی ہے ٹیم کے ساتھیوں کی ہتھیلیوں میں ایک انگوٹھی کو چھپاتی ہے۔ پھر وہ دوسری ٹیم کو اپنی بند مٹھی دکھاتے ہیں۔ دوسری ٹیم کو اندازہ لگانا ہوتا ہے کہ انگوٹھی کس ہاتھ میں چھپی ہوئی ہے۔

ایک چیونٹی اور ایک ہاتھی بہت اچھے دوست تھے اور جب بھی موقع ملتا دونوں ساتھ مل کر کھیلتے تھے۔ مسئلہ یہ تھا کہ، ہاتھی کے والدبہت سخت قسم کے تھے اور انہیں ہوم ورک کرنے یا اس کی والدہ کو چھوٹے چھوٹے کام میں مدد کی ضرورت ہونے کے وقت اپنے بیٹے کا کھیلنا پسند نہیں تھا۔

۔ اور انہیں پسند نہیں تھا کہ ان کا بیٹا اپنے دوست چیونٹی کے ساتھ کھیلے جب کہ اسے دوسرے ہاتھیوں کے ساتھ کھیلنے پر ناز ہونا چاہئے۔

چھوٹا ہاتھی اپنے والد سے کافی ڈرا ہوا تھا اور ان کا غصہ ہونا اسے بالکل بھی پسند نہیں تھا۔ لیکن چیونٹی بہت بہادر چیونٹی تھی اور تندمزاج بزرگ والد سے خوفزدہ نہیں تھی۔

ایک دن، دونوں دوست مہابس کا کھیل رہے تھے کہ تبھی انہیں غصہ میں بھرے ہوئے والد کے آنے کی آہٹ سنائی دی۔ زمین دھمک سے ہل رہی تھی اور وہ درختوں کو توڑتا پھوڑتا آرہا تھا۔

ارے نہیں، یہ میرے والد ہیں!’ نوجوان ہاتھی چلایا، اس کے چہرے پر خوف چھا گيا۔ ‘میں کیا کرسکتا ہوں؟

چھوٹی چیوٹی نے اپنی چھاتی پھلائی اور اپنے پورے قد سے کھڑی ہوگئی۔ ‘فکر نہ کرو، میرے دوست، تم میرے

پیچھے چھپ سکتے ہو اور تمہارے والد تمہیں تلاش نہیں کرسکیں گے!’

غریب آدمی کی محبت بھری کہانی

0

غریب آدمی کی محبت بھری کہانی

عنوان: “کوئی امید نہیں تھی

ایک لڑکا جس کا نام بلال تھا۔

اسماء نام کی لڑکی

بلال ایک نوجوان لڑکا تھا جو اپنے والد کے ساتھ ایک چھوٹے سے گاؤں میں رہتا تھا

وہ اپنے نرم دل اور مددگار طبیعت کے لیے مشہور تھے

اپنی خراب مالی حالت کے باوجود، بلال کا ہمیشہ مثبت رویہ تھا اور

اسے یقین تھا کہ ایک دن اس کے ساتھ اچھی چیزیں رونما ہوں گی۔

ایک دن بلال کی ملاقات اسماء نام کی ایک خوبصورت لڑکی سے ہوئی

جو اپنے والد کے ساتھ گاؤں آئی تھی

اسماء بلال کے مثبت رویے اور مہربان دل سے مسحور ہو گئیں

وہ جلدی سے دوست بن گئے اور ساتھ وقت گزارنے لگے۔

تاہم عاصمہ کے والد کو ان کی دوستی منظور نہیں تھی۔

اس نے سوچا کہ بلال اپنی بیٹی کےلیے اچھا نہیں ہے اور اس نے اسے دوبارہ ملنے سے منع کردیا۔

عاصمہ دل شکستہ تھی لیکن اپنے والد کی خواہش پر عمل کرتی رہی۔

دن گزرتے گئے اور بلال کے مالی حالات خراب ہوتے گئے۔

اس کے والد بیمار ہو گئے، اور ان کے پاس

اتنے پیسے نہیں تھے کہ وہ طبی اخراجات ادا کر سکیں۔ ایسی سنگین صورتحال میں

بلال کا مثبت رویہ ڈگمگا گیا، اور وہ امید کھو بیٹھا۔

ایک دن اسماء بلال سے ملنے آئی اور اسے اپنے والد کے منصوبے کے بارے میں بتایا

کہ اس کی شادی ایک امیر آدمی سے کر دی جائے گی۔

وہ شادی نہیں کرنا چاہتی تھی لیکن اس کے والد اسے ایسا کرنے پر مجبور کررہے تھے۔

بلال نے عاصمہ کی آنکھوں میں اداسی دیکھ کر اس کی مدد کرنے کا فیصلہ کیا۔

اس نے عاصمہ کے والد کے پاس جا کر عاصمہ سے اپنی محبت کے بارے میں بتایا

اور اس سے شادی کے لیے ہاتھ مانگا۔

اسماء کے والد کو صدمہ ہوا

لیکن وہ بلال کی آنکھوں میں سچی محبت دیکھ سکتے تھے اور اس شرط پر

ان کی شادی کے لیے راضی ہو گئے کہ بلال خود کو اسماء کے لیے فراہم کرنے کے قابل ثابت ہوں۔

بلال نے اسے ایک چیلنج کے طور پر لیا اور سخت محنت شروع کر دی۔

اس نے لمبے گھنٹے لگائے اور ان کی مالی حالت کو بہتر بنانے کے لیے سخت محنت کی۔

آہستہ آہستہ لیکن یقینی طور پر، بلال کی محنت رنگ لائی گئی، اور

وہ اپنے والد کے طبی اخراجات کے لیے کافی رقم بچانے اور ایک نئی زندگی شروع کرنے کے قابل ہو گئے۔

اسماء اور بلال کی شادی ہوگئی، اور وہ ہمیشہ خوش و خرم رہنے لگے۔

انہوں نے ثابت کیا کہ محبت تمام رکاوٹوں کو فتح کر سکتی ہے اور عزم اور محنت سے کچھ بھی ممکن ہے۔

The School Bus سکول جانے والی بس

0

The School Bus سکول جانے والی بس

سکول جانے والی بس

انگلینڈ کے بارے میں جوکوئن کو سب سے زیادہ پسند آنے والی چیز بس تھی۔ وہ اور اس کی ماں جوکوئن کے نئے اسکول جانے کے لیے ہر روز بس لیتے تھے۔ اسے مختلف مسافروں کو ادھر ادھر دیکھنا اچھا لگا۔

زیادہ تر نشستوں پر کام پر جانے والے لوگ بیٹھے ہوتے تھے ۔ وہ اسمارٹ کپڑے پہنے ہوئے ہوتے تھے اور بیگ اور بریف کیس اٹھائے ہوئے ہوتے تھے۔ دوسری نشستیں جوکوئن جیسے اسکول کے بچے لے لیتے تھے ۔ ان میں سے زیادہ تر بڑے اورمماثل یونیفارم پہنے ہوئے تھے۔

جوکوئن کے پسندیدہ مسافروں میں سے ایک سفید بالوں والی خاتون تھی۔ اس نے اپنے بیگ میں ایک چھوٹا بھورا کتا اٹھایا ہوا تھا ۔ خاتون نے کہا کہ کتا گھبرا گیا ہے۔ جوکوئن نے اس بات کو ہمیشہ یقینی بنانا کہ وہ اس کو آہستہ سے تھپکی دے۔

جوکوئن زیادہ انگریزی نہیں جانتا تھا، لیکن اس کی ماں کافی جانتی تھی۔ جب وہ بس پر چڑھتے تو وہ کرایہ پوچھتی۔ بس ڈرائیور ان کے ٹکٹ پرنٹ کرتا۔

ہر صبح وہ کہتی، ‘بلیک فرایئرز کے لیے دو واپسی کے ٹکٹ۔’ ۔ جب وہ بس سے اترتے، تو وہ جوکوئن کو کہتی کہ ‘بہت بہت شکریہ۔’ الفاظ غیر مانوس لگے، لیکن اسے مشق کے ساتھ ان کا تلفظ کرنے کی عادت پڑ گئی۔

جوکوئن کے اسکول میں زیادہ تر طلباء انگریزی بولنے والے تھے۔ وہ اکثر کلاس روم کے پہلو میں اکیلا بیٹھا رہتا تھا۔ اس کا استاد دوستانہ تھا، لیکن جوکوئن شرمیلا تھا۔ اس نے ایک لفظی جواب دیا اور ہاتھ نہیں اٹھایا۔ اسے انگریزی میں کچھ غلط کہنے کی فکر ہوئی۔ وہ اپنی گرامر کو ملانا یا کسی چیز کا غلط تلفظ کرنا ناپسند کرتا تھا۔ جوکوئن اپنی انگریزی بولنے سے پہلے اسے کامل کرنا چاہتا تھا، لیکن اس نے کبھی بھی مشق کرنے کا موقع حاصل نہیں کیا تھا۔

دسمبر کے شروع میں، جوکوئن کی ماں کو زکام ہو گیا ۔ اس نے اپنے آپ کو اور جوکوئن کو موٹے کپڑوں میں ملبوس کیا۔ اس نے لمبا اسکارف گلے میں لپیٹ لیا۔ جوکوئن کو پہلے ہی زکام ہو چکا تھا ، لیکن برطانوی سردیاں تلخ اور سیاہ تھیں۔

ہوا نے اس کی انگلیوں کی پوروں کو چھوا ۔ جیسے ہی وہ بس اسٹاپ پر چلے گئے، اس کی ماں کانپنے اور کھانسنے لگی ۔ جوکوئن نے اپنی ٹھنڈی انگلیاں مضبوطی سے پکڑ لیں۔

بس آ گئی، اور وہ دوسرے مسافروں کے سوار ہونے کا انتظار کرنے لگے۔ جوکوئن کی ماں نے دوبارہ کھانستے ہوئے کہا، ‘جوکوئن کرایہ کے لیے پوچھو۔’

جوکوئن نے ایک گہرا سانس لیا۔ اس نے بس میں قدم رکھا اور ادھر ادھر دیکھا۔ ہمیشہ کی طرح، وہاں بہت سے لوگ تھے. وہ اپنے فون یا کتابوں میں مشغول تھے۔ بوڑھی عورت اور اس کا کتا ہی اوپر دیکھ رہے تھے۔ خاتون جوکوئن کو دیکھ کر مسکرائی۔

تھوڑے اعتماد کے ساتھ، جوکوئن نے بس ڈرائیور کی طرف دیکھا اور اپنی انتہائی شائستہ آواز میں کہا،’ بلیک فرائز کے دو ٹکٹ۔’

بس ڈرائیور نے الجھ کر اس کی طرف دیکھا،’ بلیک فرائز؟’

‘جوکوئن نے محسوس کیا کہ اس کا چہرہ سرخ ہو رہا ہے، ‘بلیک فرائز کے لیے۔ میرا اسکول بلیک فرائز میں ہے۔

‘کیا آپ کا مطلب بلیک فرایئرز ہے؟’

‘جی ہاں، ‘جوکوئن نے سر ہلایا۔

کچھ دوسرے مسافروں نے اپنے فونوں سے سر اٹھا کر اوپر دیکھا۔ وہ جوکوئن کی وجہ سے ہونے والی تاخیر سے ناراض دکھائی دے رہے تھے۔ ایک دفعہ جب جوکوئن کی والدہ نے اپنی ٹکٹوں کی ادائیگی کر لی تو اس نے اس کا ہاتھ پکڑا اور اپنا چہرہ چھپا لیا۔

جوکوئن کو شرم محسوس ہوئی۔ اس نے اپنی ماں کی مدد کرنے کی کوشش کی، لیکن وہ ناکام رہا۔ ناک کو بار بار ُسڑکتے ہوئے، جوکوئن باقی سفر میں فرش کی طرف دیکھتا رہا۔ جب وہ بس سے اترے، تو جوکوئن نے بس ڈرائیور کو ‘شکریہ’ نہیں کہا جیسا کہ وہ عام طور پر کرتا تھا۔ اس کی ماں کو خود ڈرائیور کا شکریہ ادا کرنا پڑا۔

باقی دن کے لیے، جوکوئن معمول سے زیادہ خاموش تھا۔ اس نے اپنے استاد سے بات کرنے کی کوشش نہیں کی، حالانکہ اس نے اس کی حوصلہ افزائی کی۔ وہ خود کو بولنے پر اکسا نہیں سکتا تھا اس صورت میں کہ اس سے کوئی اور غلطی ہوجائے ۔

جب جوکوئن کی ماں نے اسے اسکول سے لیا تو وہ اس صبح سے بہتر محسوس کر رہی تھیں۔

وہ جوکوئن کو گلے لگاتے ہوئے مسکرائی،’ کیا آپ کا دن اچھا گزرا؟’

جوکوئن نے جواب نہیں دیا۔

اس کی ماں نے اس کے پاس گھٹنے ٹیک دیے اور اس کے بالوں میں آہستہ سے ہاتھ پھیرا،’ جوکوئن ، کیا ہوا؟’

‘میں اپنی انگریزی کے بارے میں سارا دن شرمیلا اور پریشان رہتا ہوں۔ میں نے آپ کی مدد کرنے کی کوشش کی، لیکن میں ایسا نہیں کر سکا۔ میں چاہتا ہوں کہ میری انگریزی کامل ہو، لیکن مجھے بولنے میں ڈر لگتا ہے۔ یہ بہت آسان ہو گا اگر انگلینڈ میں ہر کوئی ہسپانوی بولے یا کوئی ایسی چیز جو میں سمجھ سکتا ہوں۔ یہ بہت مشکل ہے. میں گھر جانا چاہتا ہوں.’

جوکوئن کی ماں نے غور سے سنا۔

جب جوکوئن اپنے آنسو پونچھنے کے لیے رکا تو اس نے کہا، ‘کوئی بات نہیں ، میرے پیارے ۔ نئی چیزیں سیکھنے میں وقت لگتا ہے۔ میں سمجھتی ہوں. تم میری مدد کرنے کے لیے اچھے لڑکے ہو۔ شکریہ۔ ‘

اس نے اس کے ماتھے پر بوسہ دیا، ‘تمہیں کامل ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ کوئی بھی مکمل نہیں. آپ کو بس پراعتماد ہونے کی ضرورت ہے۔’ وہ مسکرائی، ‘آپ بہت اچھا کر رہے ہیں، اور مجھے آپ پر فخر ہے۔ ہمت نہ ہارو، جوکوئن ۔

جوکوئن نے سر ہلایا۔

بس اسٹاپ پر جاتے ہوئے، اس نے اپنی ماں کی باتوں کے بارے میں سوچا اور محسوس کیا کہ وہ ٹھیک کہہ رہی ہیں۔ یہاں تک کہ بہترین لوگ بھی کبھی کبھی گڑبڑ کرتے ہیں اورغلطیاں کرتے ہیں۔ جوکوئن نے سوچا کہ جس چیز نے انہیں بہترین بنایا وہ یہ تھا کہ وہ اٹھے اور اگلے دن دوبارہ کوشش کی۔ اگر وہ پراعتماد ہو اور اپنا سر اونچا رکھے تو وہ کچھ بھی کر سکتا ہے۔

بس انہیں گھر پہنچانے کیلئے پہنچی۔ بس پھر سے بھری ہوئی تھی، اور جوکوئن نے لوگوں کو سوٹ میں، اسکول کے بچوں اور کتوں والی خواتین کو دیکھا، یہ سب ایک دوسرے سے یا اپنے فون پر بات کر رہے تھے۔ وہ اعتماد کے ساتھ بات کرتے تھے، اور اگر وہ غلطی کرتے ہیں، تو وہ اسے ہنسی میں اڑا دیں گے۔

جب وہ اپنے اسٹاپ پر پہنچے تو جوکوئن اور اس کی والدہ بس سے اترے، اور جوکوئن ایک روشن، پراعتماد انداز میں بس ڈرائیور کی طرف مڑا ‘شکریہ!’

بس ڈرائیور نے مسکرا کر شکریہ ادا کیا۔ جیسے ہی جوکوئن اور اس کی ماں گھر گئے، اس نے فیصلہ کیا کہ غلطیاں اتنی بری نہیں تھیں

ایک اچھا دوست

0

ایک اچھا دوست

یاسین بہت جاوان جب وہ عراق سے انگلینڈ میں منتقل ہوگیا۔
یاسین اپنے گھر سامارا چہور کر نہیں جانا چاتی تھی لیکن سامارا اب بہت حترناک تھا۔
اس کا ابو نے کہا کے انگلینڈ ایک کثیر ثقافتی جزیرہ ہے جہاں سارے نسل اور مزہب کے لوگ ایک دوسرے کے سات خوشگوار کام کرتے ہیں۔

یاسین کا خاندان اپنے سامان لے کر لنڈن گئ.وہاں بہت اوچے عمارت اور عجائب گھر تھے اور یاسین کا پسندیدہ چیزیں سیارہوم اور دریا ٹیمز پورانا پل کے سات تھا۔
یاسین کجھ وقت کے بعد اپنی پروسی کے سات دوستی ہوئ،اس کا نام تھا غینڈرو۔

پوری گرمیوں کی تعطیلات وہ دونوں پارک گئ ، چڑیا گھر گئ ، غینڈرو نے یاسین کے سات اپنے کھلونے کھیلنے دیا اور اپنے پسندیدہ سپر ہیرو کے بارے میں بتایا اور دونوں نے یاسین کی باغ میں کیمپ بنایا۔

دن پر دن یاسین لنڈن کو گھر سمج لگا اور اس کا انگلیش بہتر ہونے لگا مگر وہ ابھی بولنے میں کمی تھی اور اسی لیۓ شرمندا مہسوس ہوا۔

جب ستمبر اگئ یاسین کو اسکول جانا زاروری تھا اس لیۓ وہ اداس ہوئ لیکن اس کا ابو نے بتایا تعلیم بہت زاروری ہے ۔

بعد میں یاسین کو پتا چل گئ کے وہ عینڈرو کا کلاش میں ہوں گی۔

اگلا دن عینڈرو اور یاسین ایک دوسرے کے سات اسکول گئ اور عینڈرو نے کھیل کا میدان، استاد ، مزاخیا لرکوں اور خوبسورات لرکیوں اور قارئین کے بارے میں بتایا۔ یاسین کبھی قارئین کو نہیں دیکھا لیکن عینڈرو بہت دلچسپی تھی تو وہ زارور اچھا ہوں گا۔

مگر جب وہ کلاسروم پہنچا استانی نے یاسین کو بتایا کے وہ سب کے سامنے اپنے نام بتادوں۔

ایک لرکا نے بولا ‘ بدبودار بے ملکی’ اور سب ہسنے لگۓ اور ایک اور لرکا نے کہا ‘استانی میں سمج نہیں کر سکتی۔وہ انگریز نہیں بول سکتا’ اور سب پھر ہسنے لگۓ۔

یاسین بہت اکیلا اور اوداس مہسوس کر رہا تھا اور استانی اس کو بیٹھنے کی اجازت دیا۔ یاسین عنڈرو کے بیٹھنے کی خوایش تھی مگر وہ ایک لرکی کے سات بیٹھنا پرا۔

وہ لرکی بار بار اجیب سے یاسین کو دیکھا اور وہ الگ کرسی بیٹھنے کے لیۓ استانی کو بولایا-

جب گھنٹی بجگئ سب اپنے کوٹ پین کر کھیلنے کے میدان میں گئ مگر استانی یاسین کو بولایا تاکی وہ اس کو ایک بیج دے سکتے جس کے اوپر یاسین کا نام لیکھا تھا۔

‘اب سب آپ کا نام فورن سیکھ لیں گۓ’ استانی نے کھا۔

یاسین نے اپنے دیماغ مین سوچھا ‘ اب سب مجہ پر اور ہسیں گی’

جب وہ باہر گیا ایک چہوٹا لرکا گھوبگھرالی سنہری بال کے سات یاسین کو لرکی کا نام کہا اور یاسین اس کو سمجانے کا موفا نہیں دیا اور سب پھر ہسرہے تھے۔

یاسین گہر جانا چاتا تھا۔

‘سلام یاسین!’

یاسین پیچھے دیکھ کر عنڈرو کو دیکھا-
عندرو نے دوسرے بچے دیکھ کر کہا

‘آپ سب سے کیا ہوا؟! مین نے اپنے دوست یاسین کو بتایا کے اسکول بہت اچھا ہے- آپ اس کا پہلا دن بوڑا کیو بنا رہے ہیں؟’

‘وہ ہم سے الگ ہے’ ایک لمبی لرکی نے بولا

‘تو؟ آپ بھی الگ ہے۔ آپ پورا اسکول میں سب سب سے لمبی ہےاور جب لوگ آپ کے بارے میں مزاک بناتے ہیں آپ اداس ہوجاتی ہے’

‘اور آپ’ عینڈرو گھوبگھرالی بال لرکا کو دیکھ رہا تھا ‘آپ اداس ہوتے ہے جب لوگ آپ کا بال لرکی کا بال بولتے ہیں’

‘ ہم سب الگ ہیں اور اگر ہم سب ایک دوسرۓ کے ترہا ہوتے ہیں تو زنداگی کیسی ہون گی؟’

سارے بچے خاموش ہو گئ پھر یاسین اپنا سر اوچا رکھ کر مسکرایا اور کہا ‘بوڑینگ’

‘بالکل!’ بہت بوڑینگ’ عنڈرو بھی مسکرایا۔

پھر سارے بچے ایک دوسرے کے سات کہا ‘ بہت بوڑینگ!’

عنںدرو نے کہا کے یاسین سئ ترہا الگ ہے کیونکہ وہ ہاٹ ڈاگز کو پسند نہیں کرتا۔

سب ہسنے لگا اور سب کو بتایاوہ چیز جو ان الگ بناتے ہیں۔

پیٹڑ جینکینز نے اس کا کمیز اٹھا کر سب اس کا جنام کا نشانی فخر کے سات دیکھایا۔

جب کھیلنے کا وقت ختم ہوا عنڈرو نے ہات اٹھا کر استانی کو پوچا ‘کیا ہم اس لوگوں کے بارے میں بات کرسکتے ہیں جو دوسرے ملک سے انگلینڈ آگئ ایک نیا زندگی شرؤ کرنے کے لیۓ ، میرا دوست یاسین کی ترھا؟’

استانی نے کہا انفرادیت زاروری ہے مگر بریتانیءہ کی خوبسوراتی یۓ ہے کی وہ ایک کثیر ثقافتی جزیرہ ہے۔

یاسن نے کتاب مین دو لفظ لیکھا اور اپنے آپ سے واداہ کیا کی وہ اس لفظ کو سیک لوں گی اور ہمیشا یاد کروں گی۔

وہ ‘دوست’ بھی اپنۓ کتاب مین لیکھا کینکہ وہ بہت شکر گزار تھا کے اس نے ایک سچا دوست ملا جو اس کو کبول کرتا ہے۔

دھوبی کا گدھا

0

دھوبی کا گدھا

ہارون ایک چھوٹا سا لڑکا تھا جو کراچی (پاکستان کا سب سے بڑاشہر اور بندر گاہ)کے بیرونی علاقے کے ایک گاؤ ں میں رہتا تھا۔ ہارون اپنے گاؤ ں کے چھوٹے سے پرائمری سکول میں پڑھنے  جایا کرتا تھا جو کہ اس کے گھر سے کوئی ایک میل کے فاصلے پر تھا۔ اسکی جماعت کا کمرہ بہت کشادہ تھاجس میں  پٹ سن  کی بنی ہوئی بہت لمبی لمبی چٹائیاں فرش پر لمبی اور سیدھی قطاروں میں بچھی ہوتی تھیں۔ بچےّ ان چٹا ئیوں پر  تختہ سیاہ اور استاد کیطرف منہ کرکے بیٹھتے تھے۔ بچوّ ں کے لئے کوئی میز اور کرسیاں نہیں تھیں۔صرف ایک ڈیسک کمرے میں سب کے سامنے  کی طرف تھا جو کہ صرف  استاد کے استعمال میں تھا۔وہاں ایک طرف ایک الماری بھی تھی جس میں بچوّ ں کی کاپیاں اور کتابیں وغیرہ رکھی ہوئی  ہوتی تھیں۔ ان چند چیزوں کے علاوہ اس کمرے میں کوئی فرنیچر نہیں تھا۔ ان دنوں میں گاؤ ں کے چھوٹے سکولوں میں عام طور پر یہی طریقہ ہوتا تھا۔   

ہارون ایک اچھا لڑکا تھا جو کہ اپنے بڑے بزرگوں، اپنے والدین اور اپنے استاد کی عزّ ت کیا کرتا تھا۔ وہ روزانہ  بہت صبح سویرے اٹھتا   تاکہ وقت پر تیاّ ر ہو کر ناشتہ کرے، اور پھر وہ گھر سے نکل کر کھیتوں کے درمیان سے گزرتا ہوا  لمبا سفر طے کرکے سکول میں وقت سے پہلے پہنچ جائے۔وہ بہت محنت کرتا اور ہمیشہ اپنا سکول کا کام ختم کرتا۔ وہ ہمیشہ اپنے والدین کی اس نصیحت پر عمل کرتا کہ آج کا کام کبھی کل پر مت چھوڑو۔

سکول میں تفریح کے وقت ہارون اپنے دوستوں کے ساتھ کھیل کے میدان میں کبڈّ ی کھیلا کرتا تھا۔ یہ کھیل پاکستان کے دیہاتی علاقوں کے نو جوانوں کے درمیان بہت مقبول ہے، اور ہارون کو بھی یہ کھیل کھیلنا بہت پسند تھا۔

ہارون کے ہمسائے میں ایک دھوبی بھی  رہا کرتا تھاجس کا نام تاجوُ تھا ۔ تاجوُ کے پاس ایک مر یل سا گدھا تھا جس پر سوار ہو کر وہ ہر ہفتے قریب کے ایک قصبےمیں جاتا اور وہاں کے لوگوں سے میلے کپڑوں کی گٹھڑیاں جمع کرکے لاتا۔ پھروہ گدھے پر سوار ہو کر کپڑوں کے ساتھ دریا پر جاتا اور وہاں پر وہ کپڑے دھو کر لاتا۔

تاجوُ کی ایک بری عادت تھی کہ جب وہ گدھے پر سوار ہوتا تو وہ بچارے گدھےکی ٹانگوں پر  زور  زور سے چھڑ ی مارتا جاتا تھا، تب وہ گدھا ایک بھیانک سی آواز  نکالتا تھا۔ ’ ڈھیں  ہوُ ں ،  ڈھیں ہوُ ں ‘  اور ساتھ ہی  تاجوُ  اپنا اور  بھاری  گٹھڑیوں کا بوجھ بھی اس پر لادے ہوئے ہوتا تھا۔پھر شام کو وہ گدھے پر سوار دھلے ہوئے کپڑوں  کی گٹھڑیوں کا بوجھ بھی اس پر لادے ہوئے اس کی ٹانگوں پر چھڑی مارتا ہوا واپس  آتا  تھا۔ جب دھوبی پاس سے گزرتا تو  ہارون اکثر گدھے کی یہ بھیانک اور غمزدہ آواز سنتا، اور گدھے کے بارے میں پریشانی کی وجہ سے وہ بچہّ رات کو سو نہ سکتا۔

دوسرے دن صبح کے وقت بھی سکول جاتے  ہوئے ہارون دھوبی کو  گدھے پر دھلے ہوئےکپڑوں کےساتھ سوار شہر کی طرف جاتے ہوئے  دیکھتا، جو ہمیشہ کی طرح گدھے کو لمبی چھڑی کے ساتھ   پیٹتا جاتا تھا۔بچارہ چھوٹا سا لڑکا اکثر بہت غور  و فکر سے  دیر تک اس کے بارے میں سوچتا رہتا کہ کس طرح اس گدھے کو   تاجوُ  کی مار  پیٹ سے بچایا جائے۔  مگر کبھی بھی  کوئی منصوبہ اس کی سمجھ میں نہیں  آیا۔

یہ سب کچھ عرصے تک جاری رہا، گدھا کمزور اور بوڑھا ہو گیا۔ تاجوُ  خود  بھی اپنے گدھے کی طرح بوڑھا اورکمزور  ہو گیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ دھوبی شہر سے اتنے  زیادہ کپڑوں کی گٹھڑیاں جمع کرکے دھونے کے لئے نہیں لا سکتا تھا۔ اس وجہ سےوہ اب زیادہ  غریب  ہو گیا تھا، اور اس کو اپنے گدھے کی دیکھ بھال پہلے سے زیادہ  مشکل لگتی تھی۔ اب تاجوُ  نے گدھے کو  تازہ سبز  گھاس  کی بجائے بچا کھچا کھانا دینا شروع کر دیا۔ لیکن اس کی گدھے کو  پیٹنے کی عادت نہیں بدلی۔

پھر ایسا اتفاق ہوا کہ ہارون نے اپنے پرائمری سکول کے فائنل امتحان کو اپنی جماعت میں سب سے زیادہ نمبرحاصل کرکےپاس کر لیا۔ ہیڈ ماسٹر نے اس کے سرٹیفِکیٹ کے ساتھ  اسے ایک خاص انعام بھی دیا، ہارون گاوُ ں بھر میں بہت مشہور ہو

گیا ۔اس کے والدین انتہائی خوش ہوئےاور اپنے بیٹے کی کامیابی پر ناز کرنے لگے۔ اس کی محنت اور کامیابی کی خوشی مناتے ہوئے ہارون کے والدین نے اس سےوعدہ کیا ،  کہ وہ اسے اس کی مرضی کی جو  چیز بھی وہ پسند کرے گا ، اسے وہی  تحفے میں خرید کر دیں گے۔

اسی رات کو جب وہ چھوٹا سا لڑکا اپنے کمرے میں سونے کے لئے گیا، اس کے کمرے کی کھڑکی کھلی تھی اور اسے اس بچارے گدھے کی غمزدہ آواز تھوڑے فاصلے سے سنائی دے رہی تھی ’ ڈھیں  ہوں  ،  ڈھیں  ہوں ‘  ۔ ہارون نے اسی وقت فیصلہ کر لیا کہ وہ اپنے والد سے تاجوُ کاگدھا خریدنے کے لئے کہے گا۔ اسے یقین تھا کہ اس کے اباّ جان اس سے تعاون کریں گے مگر اسے ڈر تھا کہ بوڑھا  تاجوُ شاید نہ مانے۔

دوسرے دن جب ہارون نے درخواست کی کہ کیا وہ  تاجوُ کا گدھا خرید سکتا ہے؟ تو اس کے والد اس کی غیر متوقع درخواست پر بہت حیران ہوئے۔ انہوں نے کہا    ’بیٹے ! تاجوُ کے گدھے میں کیا خاص بات ہے؟  تم کوئی دوسرا  جانور بھی پال سکتے ہو‘۔  لیکن ہارون نے کہا ’ نہیں اباّ جان!  میں تاجو کا گدھا ہی حاصل کرنا بہتر سمجھتا ہوں ‘ ۔ تب اس چھوٹے سےلڑکے نے اپنے والد کے سامنے  تمام کہانی بیان کی کہ کس طرح  تاجوُ   اپنے گدھے کو  ایک لمبی چھڑی سے مارتا ہے اور کس طرح وہ اپنے گدھے سے کپڑوں کی بھاری  گٹھڑیاں اٹھواتا ہے اور اسےکھانے کے لئے تازہ گھاس کی بجائے بچا کھچا کھانا اسکے آگے ڈال دیتا ہے۔ ہارون نےاپنے والد کو وضاحت کرکے بتایا کہ کس طرح وہ  عرصے سے بچارے گدھے  کو اس سخت ظلم سے  بچانے کی خواہش رکھے ہوئے تھا۔ اس کی داستان سننے کے بعد اس کے والد اپنے بیٹے کے لئے اس بوڑھے گدھے کو خریدنے  پر راضی ہو گئے۔

اس طرح دوسرے روز صبح ہارون اور اس کے والد تاجوُ سے ملنے گئے اور انہوں نے دھوبی سے پوچھا کہ کیا وہ اس کا گدھا خرید سکتے ہیں؟ تاجوُ  کو اس درخواست پر بہت تعجبّ  ہوا ، تب وہ سوچنے لگا کہ اس کا گدھا  کتنا بوڑھا اور کمزور ہو  چکا ہے، اور اسےکھلانا پلانا اور اس کی دیکھ بھال کرنا اب کافی مشکل ہو گیا تھا۔ پھر تاجوُ  اچھی قیمت حاصل کرنے کے لئے کچھ دیر  بحث کرنے کے بعد اپنے بوڑھے گدھے کو باپ بیٹے کے ہاتھ  بیچنے  پر راضی ہو گیا۔

ہارون اور اباّ جان گدھے کو اپنے ساتھ ہی گھر لے آئے اور اسے اپنے گھر کے پیچھے بہت بڑے صحن میں آزاد چھوڑ دیا۔انہوں نے بوڑھے گدھے کو

کھانے کیلئے تازہ گھاس بھی دی۔اور  انہوں نے وعدہ کیا  کہ آیئندہ  اسے کبھی بھی کپڑوں کی بھاری گٹھڑیاں نہیں اٹھانی پڑیں گی، اور نہ ہی کسی لمبی چھڑی سے مار کھانی پڑے گی۔

ہارون نے ہمیشہ گدھے کی دیکھ بھال کی پوری کوشش کی، اور باوجود اس کے کہ وہ گدھا بہت ہی بوڑھا تھا  مگر وہ جلد ہی طاقتور اور صحت مند ہو گیا۔ وہ چھوٹا سا لڑکا بہت خوش تھا کیوں کہ وہ یہ دیکھ سکتا تھا کہ گدھا اپنے نئے گھر میں کتنا خوش تھا ۔اور اب ہارون کو کبھی بھی اس کی وہ انتہائی غمزدہ  آواز یں نہیں سننا پڑیں گی۔  کبھی ںہیں

بندر اور مگرمچھ

0

بندر اور مگرمچھ

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک بندر ندی کے کنارے ایک درخت پر رہتا تھا۔ بندر اکیلا تھا کیونکہ اس کا کوئی دوست یا خاندان نہیں تھا لیکن وہ خوش اور مطمئن تھا۔ درخت نے اسے کھانے کے لیے کافی میٹھا جامن کا پھل دیا۔ اس نے اسے دھوپ سے سایہ اور بارش سے پناہ بھی دی۔

ایک دن ایک مگرمچھ دریا میں تیر رہا تھا۔ وہ بندر کے درخت کے نیچے آرام کرنے کے لیے کنارے پر چڑھ گیا۔

‘ہیلو،’ بندر نے پکارا، جو ایک دوستانہ برتاؤ کرنے والا جانور تھا۔

  ہیلو،‘‘ مگرمچھ نے حیران ہوتے ہوئے جواب دیا۔ ‘کیا تم جانتے ہو کہ مجھے کھانا کہاں سے مل سکتا ہے؟’ اس نے پوچھا. ‘میں نے سارا دن کچھ نہیں کھایا اور میں بھوکا ہوں۔’

اب آپ سوچ رہے ہوں گے کہ مگرمچھ بندر کو کھا جانا چاہے گا، لیکن یہ بڑا ہی شفیق اور شریف مگرمچھ تھا اور یہ خیال کبھی اس کے دماغ میں نہیں آیا۔

‘میرے درخت میں بہت پھل ہیں۔ کیا آپ کچھ کھانا چاہیں گے؟’ بندر نے کہا، جو خود بھی بہت مہربان تھا۔

اس نے جامن کا کچھ پھل مگرمچھ کی طرف نیچے پھینک دیا۔ مگرمچھ اتنا بھوکا تھا کہ اس نے تمام جامن کھا لیے حالانکہ مگرمچھ عام طور پر پھل نہیں کھاتے تھے۔ اسے میٹھا میٹھا پھل بہت پسند تھا اور گلابی گودے نے اس کی زبان کو جامنی بنا دیا۔

جب مگرمچھ اپنی مرضی کے مطابق کھا چکا تھا توبندر نے کہا، ‘جب بھی آپ مزید پھل چاہیں واپس آجائیں،’۔

جلد ہی مگرمچھ ہر روز بندر کے پاس آتا تھا۔ دونوں جانور اچھے دوست بن گئے۔ وہ باتیں کرتے، ایک دوسرے کو کہانیاں سناتے اور بہت سے میٹھے جامن ایک ساتھ کھاتے۔

ایک دن مگرمچھ نے بندر کو اپنی بیوی اور خاندان کے بارے میں بتایا۔

بندر نے کہا، ‘آج واپس جاتے وقت اپنی بیوی کے لیے بھی کچھ پھل لے جانا’۔

مگرمچھ کی بیوی کو جامن بہت پسند آئے ۔ اس نے پہلے کبھی اتنی میٹھی چیز نہیں کھائی تھی لیکن وہ اپنے شوہر کی طرح مہربان اور نرم مزاج نہیں تھی۔

اس نے اپنے شوہر سے کہا، ‘تصور کیجیے کہ بندر جب یہ جامن روزانہ کھاتا ہے تو اس کا ذائقہ کتنا میٹھا ہوگا’۔

مہربان مگرمچھ نے اپنی بیوی کو سمجھانے کی کوشش کی کہ وہ بندر کو نہیں کھا سکتا۔

‘وہ میرا سب سے اچھا دوست ہے،’ اس نے کہا۔

مگرمچھ کی لالچی بیوی نہ سنتی۔ اپنے شوہر سے وہ کام کروانے کے لیے جو وہ چاہتی تھی، اس نے بیمار ہونے کا بہانہ کیا۔

‘میں مر رہی ہوں اور صرف ایک پیارے بندر کا دل ہی مجھے ٹھیک کر سکتا ہے!’ اس نے اپنے شوہر کو پکارا. ‘اگر تم مجھ سے محبت کرتے ہو تو تم اپنے دوست بندر کو پکڑو گے اور مجھے اس کا دل کھانے دو گے۔’

بیچارے مگرمچھ کو سمجھ نہیں آرہی تھی کہ وہ کیا کرے۔ وہ اپنے دوست کو کھانا نہیں چاہتا تھا لیکن وہ اپنی بیوی کو مرنے نہیں دے سکتا تھا۔

آخر کار، اس نے فیصلہ کیا کہ اسے کیا کرنا ہے اور اگلی بار جب وہ بندر کے پاس گیا تو اس نے اس سے کہا کہ وہ اس کی بیوی سے ملنے آئے کیونکہ وہ جامن کے خوبصورت پھل کے لیے ذاتی طور پر اس کا شکریہ ادا کرنا چاہتی تھی۔

بندر خوش ہوا لیکن کہا کہ وہ نہیں جا سکتا کیونکہ وہ تیرنا نہیں جانتا تھا۔

‘اس کی فکر نہ کرو،’ مگرمچھ نے کہا۔ ‘میں تمہیں اپنی پیٹھ پر لے کر جاؤں گا۔’

بندر راضی ہو گیا اور مگرمچھ کی پیٹھ پر کود کر بیٹھ گیا۔

چنانچہ دونوں دوست گہرے چوڑے دریا میں چلے گئے۔

جب وہ کنارے اور جامن کے درخت سے بہت دور پہنچے تو مگرمچھ نے کہا، ‘مجھے بہت افسوس ہے لیکن میری بیوی بہت بیمار ہے اور کہتی ہے کہ بندر کا دل ہی اس کا علاج ہے۔ مجھے ڈر ہے کہ  مجھے تمہیں مارنا پڑے گا، حالانکہ میں ہماری باتوں  کو یاد کروں گا۔’

بندر نے جلدی سے سوچا اور کہا پیارے دوست، مجھے تمہاری بیوی کی بیماری کا سن کر بہت افسوس ہوا۔ مجھے خوشی ہے کہ میں اس کی مدد کر سکوں گا لیکن میں نے اپنا دل جامن کے درخت میں چھوڑ دیا ہے۔ کیا آپ کو لگتا ہے کہ ہم واپس جا سکتے ہیں تاکہ میں اسے لا سکوں؟’

مگرمچھ نے بندر کی بات مان لی۔ وہ مڑا اور تیزی سے تیر کر جامن کے درخت کی طرف گیا۔ بندر اس کی پیٹھ سے چھلانگ لگا کر اپنے درخت کی حفاظت میں چڑھ گیا۔

‘میں نے سوچا کہ آپ میرے دوست ہیں،’ اس نے پکارا۔ ‘کیا تم نہیں جانتے کہ ہم اپنے دل کو اپنے اندر رکھتے ہیں؟ میں پھر کبھی تم پر بھروسہ نہیں کروں گا اور نہ ہی تمہیں اپنے درخت کا پھل دوں گا۔  چلے جاؤ اور واپس نہ آنا۔’

مگرمچھ نے اپنے آپ کو بہت بے وقوف محسوس کیا ۔ اس نے ایک دوست اور اچھے میٹھے پھل کی فراہمی کھو دی تھی۔ بندر نے خود کو بچا لیا تھا کیونکہ اس نے جلدی سوچ لیا تھا۔ اس دن سے اس نے پھر کبھی مگرمچھوں پر بھروسہ نہیں کیا۔